"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
نماز باجماعت ادائيگى پر آپ كى حرص پر ہم اس ميں بركت كى دعا كرتے ہيں، اور اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ آپ كو اپنى اطاعت و فرمانبردارى پر ثابت قدم ركھے، اور ہمارے اور آپ كے اعمال قبول فرمائے.
جى ہاں، بيمارى نماز باجماعت سے پيچھے رہنے كے عذر ميں شامل ہوتى ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:
" اور وہ مرض ہے جس كى بنا پر مسجد ميں نماز باجماعت كى ادائيگى كے ليے آنا مشكل ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميرے علم كے مطابق اہل علم كے مابين اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ مريض بيمارى كى بنا پر نماز باجماعت سے پيچھے رہ سكتا ہے، اور اس ليے بھى كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيمار ہوئے تو مسجد ميں نہيں گئے اور فرمايا: ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم دو كہ وہ لوگوں كو نماز پڑھائے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 27 / 187 ).
فقھاء رحمہم اللہ نے بيان كيا ہے كہ جب مريض كو خدشہ ہو كہ اس كى بيمارى كى شفايابى ميں تاخير ہو گى تو وہ معذور ہے، اور اس پر عبادت ميں تخفيف ہو گى، چاہے نماز ہو يا روزہ يا طہارت و پاكيزگى وغيرہ.
ديكھيں: الانصاف ( 2 / 305 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 14 / 258 ).
اور اس ميں كسى ثقہ ڈاكٹر كى بات معتبر ہو گى، يا پھر تجربہ كى بنا پر اس كى معرفت ہو سكتى ہے.
چنانچہ اگر زيادہ پيدل چلنا شفايابى ميں تاخير كا باعث ہے تو پھر مسجد ميں نماز باجماعت ترك كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس بنا پر كہ آپ نماز باجماعت كى پابندى كرتے ہيں ان شاء اللہ آپ كو اس كا اجروثواب حاصل ہوتا رہے گا، كيونكہ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب بندہ بيمار ہو جاتا ہے يا سفر ميں ہوتا ہے تو اس كے ليے وہى اعمال لكھے جاتے رہتے ہيں جو وہ صحيح اور مقيم كى حالت ميں كرتا تھا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2834 ).
واللہ اعلم .