اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

گریجویشن کی تقریبات میں بُرے امور پر انتباہ

سوال

آج کل گریجویشن کی تقریبات  بہت زیادہ منعقد ہونے لگی ہیں اور ان میں لڑکے اور لڑکیوں کی دلچسپی بہت بڑھ گئی ہے، ان میں خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے،میرا سوال ہے کہ  ان تقریبات کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ایک  طالب علم کا گریجویشن کا مرحلہ مکمل کرنا اور پھر کامیابی کی سند حاصل کرنا  ایسا معاملہ ہے کہ جس میں طلبہ، اہل خانہ، ساتھی اور دوست احباب سب لوگ اس خوشی میں شریک ہوتے ہیں؛ کیونکہ  یہ وقت ایک ایسا وقت ہے جو محنت، جد و جہد اور پریشانی سے نکل جانے کی نوید سناتا ہے، اس کے بعد طالب علم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے کہ طالب علم خود کفیل ہو جاتا ہے اور اپنی کمائی سے اپنی ضروریات پوری کرنے لگتا ہے، اپنی محنت کا پھل حاصل کرتا ہے، اس لیے گریجویشن کے بعد خوشی ایک فطری اور طبعی امر ہے جو کہ عمومی طور پر انسانی نفسیات کے بھی عین مطابق ہے۔ لیکن اگر یہی شخص مزید بلندیوں پر پہنچے اور ایمان کی دولت سے معمور ہو تو اس خوشی کے ساتھ ایک اور عظیم احساس اور شعور بھی دل میں پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہے اللہ کی نعمت کا احساس، پھر اس احساس پر انعام کرنے والی ذات کا شکر، نیز یہ بات بھی دل میں اچھی طرح تازہ ہو جاتی ہے کہ یہ صرف اللہ تعالی کا ہی کرم اور فضل ہے، وہی اس خوشی کے حصول میں معاون اور کامیابی دینے والا ہے، اگر وہ ذات نہ ہو تو انسان کی کامیابی اور کاوش تو دور کی بات ہے ؛ انسان خود بھی موجود نہ ہو۔

دوم:

گریجویشن کی خوشی میں اظہار مسرت میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح دوست احباب اور اہل خانہ کو مدعو کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ طالب علم کو فاضل ہونے پر خوشخبری دیں، جیسا کہ اگر جامعہ اچھے نمبر حاصل کرنے والے طلبہ  کی حوصلہ افزائی کیلیے تقریب کا انعقاد کرتا ہے کہ دیگر پڑھنے والے طلبہ میں بھی اس مرحلے تک پہنچنے کا شوق پیدا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

در حقیقت ایسی تقریبات کا حکم مباح ہے، چاہے یہ تقریبات طلبہ کیلیے منعقد ہوں یا طالبات کیلیے، بشرطیکہ میں ان میں کوئی غیر شرعی کام نہ کیا جائے، ان تقریبات میں کئے جانے والے غیر شرعی امور میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:

  1. بے جا خرچ اور شاہ خرچی دونوں ہی شریعت میں مذموم ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ )
    ترجمہ: اور اسراف نہ کرو بیشک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔[الأنعام:141 ]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
 ( وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا )
ترجمہ: اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو  اور بے جا خرچ سے بچو  [26] بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ [ الإسراء:26، 27]

یہ چیز بھی اسی برائی میں شامل ہو گی کہ ان تقریبات میں داخلے کیلیے مہنگی فیس رکھ دی جائے، جس کی وجہ سے غریب طلبہ اور ان کے اہل خانہ  پریشان ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔

  1. طالبات کی تقریبات ہوٹلوں یا ایسی جگہوں میں منعقد کرنا جہاں پر طالبات کا مردوں کی نگاہوں سے بچنا مشکل ہو، مثلاً: مرد براہ راست طالبات کو دیکھ سکتے ہوں یا کیمروں جیسے برقی آلات کے ذریعے انہیں رسائی حاصل ہو۔

اس لیے طالبات کی تقریبات ایسی جگہوں میں منعقد کرنا لازمی ہو جاتا ہے جہاں پر  مردوں کی طالبات تک رسائی نہ ہو۔

  1. تقریب میں میوزیکل گروپ کو شرکت کی دعوت دینا، یا گریجویشن واک  کے دوران موسیقی چلانا، یا ایسی نظمیں چلانا جن میں موسیقی جیسے ساؤنڈ ایفکٹ استعمال کیے گئے ہیں، تو یہ واضح طور پر گناہ ہے؛ کیونکہ آلات موسیقی  کی حرمت اور انہیں استعمال کرنے پر شرعی دلائل موجود ہیں، اس کی تفصیل کیلیے آپ سوال نمبر: (5000) کا جواب ملاحظہ کریں۔
  2. گلو کاروں یا گلوکاراؤں  کو مدعو کر کے ان تقریبات کو اپنے تئیں زندہ دل بنانے کی کوشش  کرنا، اس کیلیے پیسہ لگانا  بھی برا عمل ہے، حالانکہ یہ لوگ تقریبات کو زندہ دل نہیں بلکہ مردہ دل بناتے ہیں؛ کیونکہ ان کی زبانوں سے فحاشی اور بے حیائی کے کلمات نکلتے ہیں۔
  3. فاضل طلبہ اور طالبات کا  گریجویشن کی تقریب میں مخصوص کلیسائی لباس اور ٹوپی زیب تن کرنا کافروں کی مشابہت ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے) اس حدیث کو ابو داود : (3512) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
  4. طالبات کی تقریبات  کو ویڈیو یا فوٹو گرافی کے ذریعے محفوظ کرنا، اس طرح سے مردوں کا طالبات کو دیکھنے  کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے، چاہے فوری نہ سہی لیکن مدت بعد بھی اس کا امکان رہتا ہے۔
  5. طالبات کا ایسا لباس پہن کر ان تقریبات میں شریک ہونا کہ مسلمان خواتین کے سامنے بھی ایسا لباس پہننا مناسب نہ ہو۔

بعد ازاں:

گریجویشن کی تقریبات میں عام طور پر مذکورہ بالا برائیاں پائی جاتی ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے روکنا اور ٹوکنا چاہیے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حفاظت فرمائے، انہیں قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل  کرنے کی توفیق دے۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب