سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

غیر مسلم ممالک میں سود کے ذریعے مکان خریدنے کا حکم

101080

تاریخ اشاعت : 21-03-2023

مشاہدات : 4644

سوال

میں شادی شدہ خاتون ہوں اور کچھ عرصے سے الحمد للہ میرے خاوند کا کاروبار بہت اچھا ہو گیا ہے ، لیکن میرے خاوند کو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے سودی قسطوں میں مکان خریدنے کی پڑ گئی ہے، اس کا کہنا ہے کہ بہت سے علمائے کرام نے غیر مسلم خطوں میں مقیم مسلمانوں کے لیے اسے جائز قرار دیا ہے، تو کیا میں اس سے طلاق مانگ لوں یا اس کے ساتھ ہی رہوں اور گناہ صرف اسی پر ہی ہو گا؟ اور کیا میں اس صورت میں بھی گناہگار ہوں گی جب میں بہت مہنگا مکان اس لیے پسند کروں کہ میرا خاوند اسے مہنگا سمجھ کر سودی قسطوں میں خریدنے سے رک جائے؟ میری آپ سے گزارش ہے کہ اس اہم سوال پر بھر پور توجہ دیجیے یہ بہت اہم ہے، میں طلاق کا مطالبہ کر دوں یا کیا کروں؟ میری آپ سے التماس ہے کہ مجھے مشورہ دیں میں بہت پریشان ہوں اور ہمارا ایک بیٹا بھی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مکان یا کوئی اور چیز سودی طریقے سے خریدنا جائز نہیں ہے چاہے یہ اسلامی ملک میں ہو یا غیر اسلامی ملک میں؛ کیونکہ سود کو حرام قرار دینے والے دلائل عام ہیں اور انہی دلائل میں سود کھانے اور کھلانے والے دونوں پر لعنت بھی کی گئی ہے، یہی موقف جمہور اہل علم کا ہے۔

جبکہ فقہائے احناف اس بات کے قائل ہیں کہ دار الحرب میں حربی سے سود لینا جائز ہے، ان کے ہاں ہر وہ لین دین جائز ہے جس کا فائدہ مسلمان کو ہو اور فریقین راضی بھی ہوں اور اس میں کسی قسم کا دھوکا اور خیانت نہ ہو۔

جیسے کہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ "بدائع الصنائع" (7/132) میں کہتے ہیں:
"اس بنا پر جب کوئی مسلمان یا ذمی دار الحرب میں پروانہ امن لے کر داخل ہو، اور وہ کسی حربی سے سودی یا کوئی ایسا لین دین کرے جو اسلام میں فاسد ہے تو وہ امام ابو حنیفہ اور محمد رحمہما اللہ دونوں کے ہاں جائز ہے۔ اسی طرح ایسے مسلمان کے لیے بھی جائز ہے جو دشمن کی قید میں ہو، یا دار الحرب میں مسلمان ہونے والا غیر مسلم ہو اور ابھی تک اس نے مسلم علاقے میں ہجرت نہ کی ہو اور وہ کسی حربی سے کوئی لین دین کر لے ۔۔۔ ان دونوں کے موقف کی توجیہ یہ ہے کہ: یہاں سود لینے کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے کا مال تلف کرنا ہے، جبکہ حربی کا مال تلف کرنا جائز ہے، اور دوسری وجہ یہ بھی کہ حربی شخص کے مال کی کوئی حرمت نہیں ہوتی اس لیے مسلمان کو حربی کا مال ہتھیانے کی اجازت ہے؛ ہاں دھوکا دہی اور خیانت کے ذریعے جائز نہیں ہے چنانچہ جب فریقین راضی ہوں تو اس میں دھوکا دہی معدوم ہو جائے گی۔" ختم شد

ایسے ہی علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ "فتح القدير" (7/39) میں کہتے ہیں:
"جواز کا واضح مفہوم ہے کہ یہ تب جائز ہے جب مسلمان کو زیادہ وصولی ہو، ویسے حنفی فقہائے کرام نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ سود اور جوا بازی تب جائز ہو گی جب فائدہ مسلمان کو ہو گا۔" ختم شد
مزید کے لیے دیکھیں: تبيين الحقائق (4/97)، العناية شرح الهداية (7/38) اور حاشية ابن عابدين (5/186)

تو اس سے معلوم ہوا کہ احناف حربی کافر سے دار الحرب میں سود وصول کرنا جائز سمجھتے ہیں ؛ کیونکہ حربی کافر کا مال در حقیقت مباح ہے، اس لیے سودی لین دین کی صورت میں حربی کافر کی رضا مندی سے اسے لینا جائز ہے، لیکن مسلمان کسی کافر کو سود ادا کرے تو یہ حنفی فقہائے کرام کے ہاں بھی جائز نہیں ہے۔

اس لیے یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی اہل علم فقہائے احناف کے موقف پر اعتماد کرتے ہوئے یہ فتوی دے کہ غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے ، تو یہ غلط ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ سودی لین دین ہر طرح کا ناجائز ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فریقین مسلمان ہیں یا مسلمان اور کافر کے درمیان سودی عقد طے پا رہا ہے، پھر سود کھانے اور کھلانے والا دونوں کو ہی شدید نوعیت کی وعید سنائی گئی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور اگر تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے ترک کر دو، اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارا رأس المال ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے گا۔[البقرۃ: 278 - 279]

اسی طرح صحیح مسلم : (1598) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں یکساں ہیں۔)

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (4/47)میں کہتے ہیں:
"دار الحرب میں بھی سود اسی طرح حرام ہے جیسے دار الاسلام میں حرام ہے، اسی کے امام مالک، اوزاعی، ابو یوسف، شافعی اور اسحاق قائل ہیں ۔۔۔ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: {وَحَرَّمَ الرِّبَا} ترجمہ: اور اللہ تعالی نے سود حرام قرار دیا ہے۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

 الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس 
 ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ایسے ہی کھڑے ہوتے ہیں جیسے شیطان نے انہیں چھو کر خبطی بنا دیا ہو۔

اسی طرح یہ بھی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا 

ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عام بھی ہے کہ: (جو شخص زیادہ لے یا زیادہ کا مطالبہ کرے تو اس نے سود ی لین دین کیا) اسی طرح سود سے ممانعت کی تمام تر احادیث عمومی نوعیت کی ہیں۔ نیز جو چیز دار الاسلام میں حرام ہو وہ دار الحرب میں بھی اسی طرح حرام ہو گی جیسے مسلمانوں میں سودی لین دین حرام ہے۔" مختصراً ختم شد

دوم:

اگر آپ کا خاوند سودی لین دین پر اصرار کرتا ہے تو پھر گناہ اسی کو ہو گا، آپ کو اس وقت تک اس کا نقصان نہیں ہو گا جب تک آپ اسے ناپسند کرتی رہیں گی، اس لیے آپ کے لیے ان سے طلاق کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں ہے، تاہم تسلسل کے ساتھ انہیں نصیحت کرتی رہیں، اور اس کبیرہ ترین گناہ میں ملوث ہونے سے روکتی رہیں، انہیں بتلائیں کہ اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ بہترین بھی ہے اور پائیدار بھی ہے کہ انسان کرایہ کے مکان میں رہ لے چاہے کرائے کے مکان میں رہنا سودی طریقے سے مکان لینے کی بہ نسبت مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔

آپ نے جس حیلے کا ذکر کیا ہے اسے استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ استطاعت سے بڑھ کر مہنگا مکان خریداری کے لیے پسند کر لیں کہ آپ کا خاوند اس کی اقساط ہی نہ ادا کر سکے تا کہ وہ سود سے بچ جائے۔

ہم اللہ تعالی سے آپ دونوں کے لیے کامیابی اور راہِ راست پر چلنے کی دعا کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کی تقسیم پر رضا مندی اور قناعت کی دعا کرتے ہیں، ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ دونوں کو سود، سودی گناہ، اور سودی ارادوں اور اس کے برے انجام سے محفوظ فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب