سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دوران وضوء نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ سے دعا كرنا

سوال

مجھے ايك عادت ہے پتہ نہيں يہ عادت اچھى ہے يا برى مثلا ميں وضوء كرتے ہوئے جب اپنا پاؤں دھونے لگتا ہوں تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا واسطہ دے كر اللہ تعالى سے اپنے قدم كو صراط مستقيم پر ثابت رہنے كى دعا كرتا ہوں، اور اسى طرح ميں نماز ميں بھى يہ دعا كرتا ہوں مثلا:
رب اغفر لى و رحمنى و سامحنى بجاہ نبيك عليہ الصلاۃ و السلام "
كيا يہ دعا جائز ہے يا نہيں ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميں اس طرح دعا كرنے كى عادت بنا چكا ہوں، اور ميرا اعتقاد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى سے جو بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا واسطہ دے كر دعا كرتا ہے اللہ اس كى دعا رد نہيں كرتا، كيا يہ صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بندہ كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے صراط مستقيم پر ثابت قدم رہنے كى دعا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو ثابت قدمى عطا فرمائے.

ليكن آپ جو ثابت قدمى كى دعا كرتے ہيں اس ميں دو طرح سے غلطى پائى جاتى ہے:

پہلى غلطى:

وضوء كرتے وقت پاؤں دھوتے ہوئے يہ دعا كرنے كى عادت بنانا.

ہمارے ـ سائل ـ بھائى آپ كو علم ہونا چاہيے كہ ضوء ايك عبادت ہے اور مسلمان شخص كے ليے وضوء كے طريقہ ميں تبديلى كرنا يا اس ميں كسى قسم كى زيادتى يا كمى كرنا جائز نہيں، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مكمل اتباع و پيروى اسى ميں ہے كہ جس طرح آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء كيا اسى طرح ہم بھى كريں، اور اس ميں كسى بھى قسم كى كمى يا زيادتى نہ كريں.

ابن تيميہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" كسى شخص كے ليے بھى جائز نہيں كہ لوگوں كے ليے كوئى غير مسنون دعا يا وظيفہ اور ذكر مسنون قرار دے، اور اسے عبادت مؤكدہ بنا ڈالے اور لوگ اس كى بالكل اسى طرح پابندى كرنے لگيں جس طرح وہ نماز پنجگانہ كى پابندى كرتے ہيں، بلكہ ايسا كرنا دين ميں بدعت كى ايجاد ہے جس كى اللہ نے اجازت نہيں دى " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 510 ).

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وضوء كرتے ہوئے اعضاء كو دھونے ميں يہ طريقہ نہيں تھا جس طرح آپ كا ہے، اس ميں ايك حديث وارد ہے ليكن يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں.

حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں كوئى حديث صحيح نہيں " انتہى

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخيص الخبير ( 1 / 297 ) ميں اسى طرح نقل كيا ہے.

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" وضوء كرتے ہوئے ہر عضو كو دھوتے وقت دعا والى حديث موضوع ہے " انتہى

ديكھيں: المنار المنيف ( 45 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ وضوء كے اعضاء كى دعا كے متعلق كہتے ہيں:

" اعضاء دھوتے وقت كى دعا كى كوئى دليل اور اصل نہيں "

ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 2 / 27 - 29 ).

اور الشيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كا فتوى ہے:

" بعض لوگ خيال كرتے ہيں كہ وضوء ميں ہر عضو دھوتے ہوئے كوئى مخصوص دعا ہے، اور اس سلسلہ ميں احاديث بھى روايت كى جاتى ہيں، ليكن ان احاديث ميں سے كوئى بھى صحيح نہيں، بلكہ سب باطل ہيں " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 2 / 49 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" ان سب كى كوئى اصل نہيں، اور نہ ہى اس ميں كوئى حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محفوظ ملتى ہے، اس ليے وضوء كے اعضاء دھوتے وقت يہ سب دعائيں مستحب نہيں ہيں، بلكہ وضوء ميں دو چيزيں مستحب ہيں:

پہلى: وضوء شروع كرتے وقت بسم اللہ پڑھنا.

دوسرى: اور وضوء كرنے كے بعد كلمہ شہادت پڑھنا، وضوء ميں يہى مشروع ہے " انتہى

ديكھيں: درس نمبر ( 13 ) كيسٹ نمبر ( 2 ).

اور يہ نہيں كہا جا سكتا كہ فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كيا جا سكتا ہے، كيونكہ يہ قاعدہ اور اصول متفق عليہ نہيں، بلكہ اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے، پھر ضعيف حديث پر عمل كرنے كے ليے شرط يہ ہے كہ اس حديث ميں شديد قسم كا ضعف نہ پايا جاتا ہو، اور يہاں يہ شرط مفقود ہے جيسا كہ ابن علان وغيرہ نے تحقيق كے ساتھ بيان كيا ہے.

ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 2 / 29 ).

اور اس مسئلہ ميں امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الاغضاء عن الدعاء الاعضاء " كے نام سے ايك رسالہ لكھا ہے جس ميں اس سلسلہ ميں مروى روايت كے شديد ضعف كو بيان كيا ہے، اور كہا ہے كہ اس حديث ميں عمل كى صلاحيت نہيں چاہے فضائل اعمال ميں ہى كيوں نہ ہو.

مزيد آپ سوال نمبر ( 45730 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اس ميں دوسرى غلطى يہ ہے كہ: آپ دعا ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا واسطہ ديتے ہيں.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مقام و مرتبہ بہت ہے، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے اس مقام و مرتبہ اور نبى كے واسطے كو دعا كى قبوليت كا وسيلہ نہيں بنايا.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ايسا كرنے كے ليے ہمارى راہنمائى نہيں كى ـ حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر قسم كى خير و بھلائى كى طرف ہمارى راہنمائى كى ہے ـ ليكن انہوں نے اس كے ساتھ اللہ كو وسيلہ دينے كى راہنمائى نہيں فرمائى.

تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ يہ دعا مشروع اور جائز نہيں ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 23265 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

اس ليے ميرے بھائى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور طريقہ كى پيروى و اتباع كى حرص ركھيں، اور اس وضوء ميں نہ تو كسى قسم كى كوئى كمى كريں اور نہ ہى زيادتى، اور دين ميں نئے كام كى ايجاد سے اجتناب كريں، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اس فرمان ميں ہميں وصيت فرمائى ہے:

" تمہيں چاہيے كہ تم ميرى اور ميرے خلفاء راشدين كى سنت كو لازم پكڑو، اور اس پر سختى سے عمل كرتے رہو، اور نئے نئے امور و بدعات سے اجتناب كرو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4607 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب