الحمد للہ.
اول:
جب آپ اس شخص كو ناپسند كرتى تھيں تو آپ كے والد نے اس شخص كے ساتھ شادى كرنا قبول كرنے پر مجبور كر كے بہت شديد غلطى كى ہے، اور والد نے پھوپھى كے بيٹے سے شادى كو قبول كرنے كے سلسلہ ميں آپ پر جو دباؤ ڈالا ہے وہ شرعى طور پر قابل قبول نہيں، اور نہ ہى مجبور كرنے پر شرعى شادى كے اثرات مرتب ہو سكتے ہيں.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايم ( يعنى بيوہ يا مطلقہ ) عورت اپنے ولى سے اپنى زيادہ حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كے بارہ ميں اجازت لى جائيگى، اور كنوارى كى اجازت اس كى خاموشى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے كسى شخص كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ عورت كى اجازت كے بغير اس كى شادى كر دے، اور اگر وہ اسے ناپسند كرتى اور كراہت كرتى ہے تو اسے نكاح پر مجبور نہيں كيا جائيگا، الا يہ كہ چھوٹى عمر كى كنوارى بچى كى شادى اس كا والد كريگا اور اس كو اجازت كا حق نہيں، ليكن بالغ اور ثيبہ ( جس كى شادى ہو چكى تھى اور اب وہ خاوند كے بغير ہے ) عورت كى اجازت كے بغير اس كى شادى كرنى جائز نہيں، نہ تو والد ہى اس كى شادى بغير اجازت كر سكتا ہے اور نہ ہى كوئى دوسرا، اس پر مسلمانوں كا اجماع ہے.
اور اسى طرح بالغ كنوارى لڑكى كے والد اور دادا كے كے علاوہ كسى اور كو حق نہيں كہ وہ اس كى اجازت كے بغير نكاح كر ديں، اس پر بھى مسلمانوں كا اجماع ہے، كيونكہ باب اور دادا كو بھى اس سے اجازت لينى ضرورى ہے.
علماء كرام اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا كنوارى لڑكى سے اجازت لينى واجب ہے يا كہ مستحب ؟
صحيح يہى ہے كہ يہ واجب ہے، اس ليے ولى كو چاہيے كہ وہ جس سے اپنى لڑكى كى شادى كر رہا ہے اس شخص كے متعلق اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے ديكھے كہ آيا وہ اس لڑكى كا كفو اور برابر كا ہے يا نہيں كيونكہ وہ شادى ان دونوں كى مصلحت كے ليے كر رہا ہے اپنى مصلحت كے ليے نہيں، ولى كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ اپنى كسى غرض اور مقصد كے ليے كسى ناقص خاوند سے لڑكى كى شادى كر دے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 39 - 40 ).
دوم:
اگر باپ اپنى بيٹى كى شادى بيٹى كى رضامندى كے بغير كر دے تو اس بيٹى كے ليے نكاح لازم نہيں ہے، چاہے تو وہ اس نكاح كو رد كر سكتى ہے، اور اگر چاہے تو اس نكاح كو جارى كر دے.
امام بخارى رحمہ اللہ نے باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
" جب آدمى اپنى بيٹى كى شادى كرے اور بيٹى اسے ناپسند كرتى ہو تو اس كا نكاح مردود ہے "
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك كنوارى لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور اس نے بيان كيا كہ اس كے والد نے اس كى شادى نہ چاہتے ہوئے بھى كر دى وہ اسے ناپسند كرتى تھى، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے اسے اختيار دے ديا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2096 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1875 ) ابن قيم رحمہ اللہ نے تھذيب السنن ( 3 / 40 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے كثرت سے دعا كريں وہى اللہ مجبور و لاچار اور بےكس كى دعا كو قبول كرنے والا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كون ہے جو بےكس و لاچار كى دعاء كو قبول كر كے اس كى سختى كو دور كرتا ہے ؟ اور تمہيں زمين كا خليفہ بناتا ہے كيا اللہ تعالى كے ساتھ كوئى اور بھى معبود ہے ؟ تم بہت ہى كم نصيحت و عبرت حاصل كرتے ہو النمل ( 62 ).
اور اس كے ساتھ ساتھ آپ اپنے خاندان كے عقل و دانش ركھنے والے افراد سے بھى معاونت حاصل كريں، مثلا اپنے چچاؤں سے اور پھوپھى اور ماموں اور خالہ وغيرہ سے، اور ان سب كو چاہيے كہ وہ اس معاملہ ميں ضرور دخل اندازى كريں بلكہ ان كے ليے واجب ہے كہ وہ آپ كے والد كو بھى نصيحت كريں اور آپ كے خاوند كو بھى كہ وہ طلاق دے دے.
ليكن اگر يہ سب فائدہ نہ دے سكے تو پھر ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ اپنا معاملہ شرعى عدالت ميں شرعى قاضى كے سامنے پيش كريں، اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى مشكل اور پريشانى كو ختم كرے.
سوم:
ہم خاوند كو بھى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے اپنے عقد نكاح ميں ہونے والى بيوى پر ظلم و ستم سے رك جائے، اور ہم اسے نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اچھے طريقہ سے احسان كے ساتھ اسے چھوڑ دے.
ہميں تو يہ سمجھ نہيں آ رہى كہ ايك مسلمان شخص كسى ايسى عورت سے شادى پر كيسے آمادہ ہوتا ہے جسے وہ چاہتى ہى نہيں اور وہ اس سے شادى كى رغبت ہى نہيں ركھتى، ہم اس خاوند كو يہ ياد دلانا چاہتے ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى ہر گناہ كو مؤخر كر ديتا ليكن ظلم اور قطع رحمى جيسے گناہ كو مؤخر نہيں كرتا، اور اسے يہ علم ہونا چاہيے كہ وہ عنقريب جلد يا دير سے شادى ضرور كريگا، اور پھر اس كى اولاد ميں بيٹے اور بيٹياں بھى ہونگى.
اس ليے اسے ڈرنا چاہيے كہ كہيں اللہ تعالى اس كى سزا اس كى بيٹيوں ميں نہ دے دے، كہ ان سے كوئى ايسا شخص شادى كر لے جو صرف لڑكى سے انتقام لينا چاہتا ہو، يا پھر لڑكى كے خاندان والوں سے انتقام لينا چاہے.
تو اس طرح اس كى بيٹى اس كے ليے آزمائش اور سزا بن كر رہ جائے، اور اسے دنيا و آخرت ميں اللہ تعالى كى سزا اور پكڑ سے ڈرنا چاہيے، كيونكہ دنيا ميں ظلم كرنا روز قيامت كے اندھيروں ميں شامل ہوتا ہے.
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اللہ تبارك و تعالى سے روايت كيا ہے كہ اللہ كا فرمان ہے:
" اے ميرے بندو يقينا ميں نے اپنے اوپر ظلم كو حرام كيا ہے، اور اسے تم پر بھى آپس ميں ايك دوسرے پر ظلم كرنا حرام كيا ہے، اس ليے تم آپس ميں ايك دوسرے پر ظلم مت كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2577 ).
اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ظلم روز قيامت كے اندھيروں اور سختيوں ميں سے ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2315 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2579 ).
بعض سلف رحمہ اللہ كا قول ہے:
" اگر تمہارى قدرت و طاقت لوگوں پر ظلم كرنے كى دعوت دے اور ابھارے تو تم اپنے اوپر اللہ سبحانہ و تعالى كى قدرت و طاقت كو ياد كر ليا كرو "
اور كسى شاعر نے كيا ہى عجيب بات كہى ہے:
جب تم طاقت اور قدرت ركھتے ہو تو ظلم مت كرو كيونكہ ظلم كا انجام ندامت ہے.
تم نيند ميں ہو ليكن مظلوم بيدار ہے اور وہ تمہارے خلاف دعا كر رہا ہے، اور پھر اللہ كو تو نيند نہيں آتى.
اس ليے ہم اس خاوند كو يہى كہيں گے كہ تم اللہ كے سامنے پيش ہونے كو ياد ركھو، اس دن اللہ كے سامنے پيش ہوؤ گے جس دن نہ تو مال فائدہ دےگا اور نہ ہى اولاد، اور وہ ايسا دن ہے جس ميں انسان اپنے بھائى اور ماں باپ وغيرہ سب سے دور بھاگےگا.
وہ ايسا دن ہے جو پچاس ہزار سال كا ہوگا، اس دن بچے بوڑھے ہو جائينگے، اور ہر دودھ پلانے والى اپنے بچے كو بھول جائيگا، اس دن اللہ زبردست مالك الملك جو ہر چيز كا خالق ہے منادى كريگا:
آج بادشاہى كسى كى ہے ؟
كوئى بھى جواب دينے والا نہيں ہوگا، كيونكہ اللہ مالك الملك كے علاوہ كوئى بادشاہ اور سلطان نہيں ہوگا.
ہم آپ كے باپ اور سب گھر والوں اور خاندان والوں كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كريں اور وہ لوگوں كى باتوں كى وجہ سے آپ پر ظلم مت كريں، كيونكہ روز قيامت انہيں اس ظلم كا جواب دينا ہوگا.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے ہر ايك شخص ذمہ دار اور راعى ہے، اور تم ميں سے ہر ايك سے اس كى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ ميں باز پرس كى جائيگى، حكمران ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے، اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى نے جس بندے كو بھى كسى رعايا كا حاكم بنايا اور وہ اپنے رعايا كے ساتھ ظلم كرتا ہوا مر گيا تو اللہ تعالى اس پر جنت كو حرام كر ديگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 142 ).
آپ كا باپ اور ماں جو آپ سے چاہتے ہيں وہ آپ كے ساتھ دھوكہ اور فراڈ اور ظلم ہے اور عدم نصيحت ہے، اس ليے انہيں اس شديد وعيد سے بچنا چاہيے جو مندرجہ بالا احاديث ميں وارد ہوئى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے گھر اور خاندان والوں كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ كى پريشانى اور مشكل كو دور كرے.
واللہ اعلم .