الحمد للہ.
اول:
نمازوں كے بعد اذكار كرنا اور اجتماعى ذكر كرنے ميں فرق ہے، نمازوں كے بعد اذكار كرنا سنت سے ثابت ہے اور ہمارے معاصر علماء كا بھى يہى قول ہے، ليكن يہ اذكار اور دعائيں بلند آواز سے نہيں كيے جائينگے كيونكہ ايسا كرنے ميں نماز ادا كرنے والوں كو تشويش ہوتى ہے.
اور دوسرى قسم يعنى اجتماعى طور پر اذكار كرنا بدعت ہے اس كا سنت ميں ثبوت نہيں ملتا.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
نماز كے بعد بيك زبان اجتماعى طور پر اذكار كرنے كا حكم كيا ہے، جيسا كہ بعض لوگ كرتے ہيں اور كيا اذكار بلند آواز سے كرنا مسنون ہيں يا پست آواز ميں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ سے سلام پھيرنے كے بعد جہرى آواز سے اذكار كرنا مسنون ہيں؛ اس كى دليل صحيحين كى درج ذيل حديث ہے:
عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں جب لوگ نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے اذكار كرتے "
ابن عباس رضى اللہ عنہ كہتے ہيں: " جب ميں يہ اذكار سنتا تو ان كے نماز سے فارغ ہونا معلوم كر ليتا تھا "
ليكن اجتماعى طور پر اذكار كرنا يعنى ايك دوسرے كى نقل كرتے ہوئے سب اذكار كہيں تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ يہ بدعت ہے، بلكہ مشروع تو يہ ہے كہ سب نمازى بلند آواز سے اذكار كريں اور اس ميں ان كا ابتدا اور انتہاء ميں سب كى آواز ملنے كا قصد نہ ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 191 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
نماز كے بعد اجتماعى طور پر بلند آواز سے مسنون اذكار كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ بدعت ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، بلكہ سنت ميں تو يہ وارد ہے كہ ہر انسان اپنے طور پر استغفار كرے، ليكن سنت يہ ہے كہ نماز كے بعد بلند آواز سے اذكار كيے جائيں.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" جب وہ نماز سے فارغ ہوتے تو ذكر بلند آواز سے كرتے جب ان سے سنتے "
يہ اس كى دليل ہے كہ بلند آواز سے ذكر كرنا سنت ہے، ليكن آج اكثر لوگ اس كے خلاف ہيں كہ وہ اذكار پست آواز ميں كرتے ہيں، اور بعض لوگ صرف لا الہ الا اللہ بلند آواز سے كہتے ہيں اور سبحان اللہ اور اور اللہ اكبر بلند آواز سے نہيں كہتے! ميرے علم ميں اس كى سنت ميں اس ميں فرق كرنے كى كوئى دليل نہيں ملتى بلكہ سنت تو يہ ہے كہ بلند آواز سے ہو....
اہم اور راجح قول يہى ہے كہ نماز كے بعد مشروع طريقہ پر اذكار كرنے مسنون ہيں،اور اس ميں بلند آواز كرنا بھى سنت ہے يعنى اتنى بلند نہ ہو كہ دوسرے كے ليے تشويش كا باعث ہو، كيونكہ ايسا نہيں كرنا چاہيے.
اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں جب لوگوں نے خيبر سے واپسى پر بلند آواز سے ذكر كرنا شروع كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" لوگو اپنے آپ نرمى كرو "
لہذا آواز بلند كرنے سے مقصود يہ ہے كہ اس ميں مشقت اور تشويش نہ ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 13 / 261 - 262 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
جس مسجد ميں ہم نماز ادا كرتے ہيں وہاں جب نماز باجماعت ختم ہوتى ہے تو لوگ اجتماعى آواز ميں استغر اللہ العظيم و اتوب اليہ كہتے ہيں، كيا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" رہا استغفار كا مسئلہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملتا ہے كہ جب آپ نماز سے فارغ ہوتے تو صحابہ كرام كى طرف منہ كرنے سے قبل تين بار استغفار كرتے.
رہا مسئلہ استغفار كرنے كى ہيئت و شكل كا جس كا سائل نے سوال ميں ذكر كيا ہے كہ اجتماعى طور پر كرتے ہيں تو يہ بدعت ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ طريقہ نہيں تھا، بلكہ ہر كوئى اپنے طور پر استفغار كرتا، اور صحابہ كرام انفرادى طور پر اجتماعى آواز كے بغير استغفار كرتے تھے، اور ان كے بعد قرون مفضلہ ميں بھى يہى طريقہ رہا ہے.
لہذا سلام كے بعد فى حد ذاتہ استغفار كرنا سنت ہے، ليكن اجتماعى آواز ميں كرنا بدعت ہے اس ليے اسے ترك كرنا اور اس سے دور رہنا ضرورى ہے " انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 72 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 32443 ) اور ( 34566 ) اور ( 10491 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
دوم:
جب نماز كے بعد اذكار اور دعائيں بلند آواز سے پڑھنے اور اجتماعى ذكر كے درميان فرق واضح ہو گيا تو اس سے يہ واضح ہوا كہ امام كے ليے اجتماعى طور پر بيك اور بلند آواز سے اذكار كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے اجتماعى آواز كے ساتھ دعا مانگنا جائز ہے، نماز پنجگانہ كے بعد اجتماعى دعا كى بدعت دو صورتوں ميں ہے:
دعا كى پہلى صورت:
سب نمازيوں كا ايك ہى آواز ميں دعا كرنا ـ چاہے وہ نماز كے بعد والى دعائيں ہو يا دوسرى ـ.
دوسرى صورت:
امام دعا كرے اور نمازى اس كى دعا پر آمين كہيں اور نمازيوں كو اس كا علم ہو اور وہ اس كى دعا كى كا انتظار كريں.
امام شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب شرعى دليل بالجملہ كسى امر كا تقاضا كرے جو مثلا عبادات كے متعلق ہو، تو مكلف بھى اس كو بالجملہ ادا كريگا، جيسے كہ اللہ كا ذكر اور دعا اور نوافل و مستحبات و غيرہ ہيں، جس كےمتعلق شارع كى جانب سے توسع كا علم ہو، تو دليل اس كے علم كى دو اعتبار سے معاون ہو گى ايك تو معانى كے اعبتار سے، اور دوسرا اس پر سلف كے عمل كے اعبتار سے.
لہذا اگر مكلف اس امر ميں كوئى مخصوص كيفيت يا مخصوص وقت يا مخصوص جگہ لائے يا كسى مخصوص عبادت كے ساتھ ملائے اور اس كا التزام كرنا شروع كر دے كہ اس سے يہ خيال ہونے لگے كہ شرعى طور پر يہ كيفيت يا جگہ يا وقت مقصود تھا ليكن اس كى كوئى دليل نہ ہو تو وہ دليل اس استدلال كردہ معنى سے دور ہو گى.
مثلا جب شريعت نے اللہ كا ذكر كرنا جائز كيا ہو اور كچھ لوگ اس كو بيك زبان اجتماعى طور پر كرنے لگيں يا پھر باقى سب اوقات كو چھوڑ كر كوئى وقت مخصوص كر ليں اور اس التزام كى شريعت ميں جواز كى دليل نہ ملتى ہو بلكہ شريعت ميں اس كے خلاف دليل ملتى ہو.
كيونكہ شرعى طور پر غير لازم امور كا التزام كرنے كى شان يہ ہے كہ اس سے تشريع سمجھى جاتى ہے، اور خاص كر ايسے شخص كى جانب سے جبكہ وہ صاحب اقتدا ہو يعنى مسجد كا امام لہذا جب يہ ظاہر ہو جائے اور مساجد ميں اس كو شعار بنا ليا جائے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دوسرے شعار اور علامات وضع كي ہيں مثلا اذان اور نماز عيدين اور نماز استسقاء اور چاند يا سورج گرہن كى نماز تو بلاشك اس سے اگر اس كى فرضيت نہ سمجھى جائے تو اس كا سنت ہونا ضرورى سمجھا جائيگا اس ليے يہ اس كے زيادہ قابل ہے كہ اس كو اس دليل ميں شامل نہ كيا جائے جس سے استدلال كيا جا رہا ہے، تو اس اعتبار سے يہ نئى ايجاد كردہ اور بدعت كہلائيگى.
اس بنا پر ہى سلف نے ان اشياء كا التزام نہيں كيا، يا اس پر عمل نہيں كيا، حالانكہ اگر يہ قواعد كے مقتضى پر مشروع ہوتے تو وہ اس كے اہل بھى تھے اور زيادہ حقدار بھى؛ كيونكہ شريعت نے بہت سارے مقامات پر ذكر اور دعائيں كرنا مندوب كيا ہے، حتى كہ جتنا كثرت سے ذكر كرنا طلب كيا ہے شريعت نے اس طرح عبادات كے متعلق كثرت سے نہيں كہا.
مثلا اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! اللہ كا ذكر كثرت سے كيا كرو .
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى اس طرح ہے:
اور اللہ كا فضل تلاش كرو اور كثرت سے اللہ كا ذكر كرو تا كہ تم كامياب ہو سكو .
ليكن باقى سب عبادات ميں اس طرح نہيں.
اور اس طرح كى دعا بھى اللہ كا ذكر ہے ليكن اس كے باوجود انہوں نے اس ميں كيفيت كا التزام نہيں كيا، اور نہ ہى اسے مخصوص اوقات كے ساتھ مقيد كيا ہے، كہ يہ محسوس ہونا شروع ہو جائے كہ يہ ان اوقات كے ساتھ مخصوص ہے ليكن جسے دليل نےمعين كر ديا ہے مثلا صبح و شام، اور نہ ہى انہوں نے اس ميں سے كچھ ظاہر كيا ليكن وہى جسے شارع نے ظاہر كرنے كا كہا ہے مثلا عيدين ميں تكبيريں اور اس كے علاوہ ميں وہ خفيہ اور پست آواز ميں كہتےتھے..
لہذا جو بھى اس اصل كى مخالفت كريگا تو اس نے اول تو مطلق دليل كى مخالفت كى، كيونكہ اس نے اس ميں رائے كے ساتھ مقيد كيا ہے، اور سلف رضى اللہ عنہم كى بھى مخالفت كى جو اس سے زيادہ شريعت كا علم ركھتے تھے"
ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 249 - 250 ).
اور شيخ بكر ابو زيد حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" اجتماعى ذكر: اس شكل اور ہئيت كا قاعدہ اور اصول جس كى جانب اس كا حكم لوٹتا ہے وہ يہ كہ:
ايك ہى آواز سے پست يا بلند آواز سے كوئى معين ذكر كرنا چاہے وہ حديث سے ثابت ہو يا ثابت نہ ہو، اور چاہے وہ سب كى جانب سے ہو يا وہ كسى ايك شخص كے كہنے كے بعد كر رہے ہوں اور ہاتھ اٹھائيں يا نہ اٹھائيں يہ وصف اور شكل شرعى دليل كے محتاج ہيں جو كتاب و سنت سے اس كے جواز پر دلالت كرتى ہو.
كيونكہ يہ عبادت ميں داخل ہے اور عبادات توقيف اور اتباع و پيروى پر مبنى ہيں نہ كہ اپنى جانب سے ايجاد و اختراع پر؛ اس ليے ہم نے كتاب و سنت سے دلائل ديكھے تو ہميں اس شكل پر كوئى دليل نہ ملى، تو اس سے يہ ثابت ہوا كہ شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى اصل نہيں ملتى اور جس كى شريعت ميں اصل اور دليل نہ ملتى ہو وہ بدعت ہے؛ تو پھر اس طرح يہ اجتماعى ذكر اور دعا بدعت ہوئى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا و پيروى كرنے والے ہر مسلمان شخص كو اسے ترك كرنا چاہيے اور اس سے بچنا چاہيے اور اس كے بدلے وہ مشروع طريقہ كا التزام كرے "
ديكھيں: تصحيح الدعاء ( 134 ).
امام ـ اور باقى سب اماموں ـ كو چاہيے كہ وہ كوشش كريں كہ اوقاف اس كو ختم كرے، اور اس سلسلہ ميں وہ وزارت اوقاف كو سنت نبويہ كے التزام كرنے كى نصيحت كريں.
تعليم كى غرض سے امام كے ليے جائز ہے كہ وہ نماز پنجگانہ كے بعد نماز كے بعد سنت سے ثابت شدہ اذكار بلند آواز سے كرے، اور دعا كرے اور نمازى اس كى دعا پر آمين كہيں ليكن يہ صرف تعليم كى غرض سے ہو گا نہ كہ فى ذاتہ فعل كى مقصد سے، اور يہ اوقاف سے چھٹكارا حاصل كرنے كا بھى وسيلہ بن سكتا ہے اور لوگوں كى تعليم كا بھى اور تاليف قلب بھى حتى كہ جب وہ سنت كو سمجھ ليں تو امام بھى بلند آواز سے كہنا چھوڑ دے اور نمازى بھى چھوڑ ديں.
ہمارے بھائى اسى طرح آپ جو جماعت كے ساتھ بيٹھے رہتے ہيں اور اكيلے ہى اذكار مكمل كرتے ہيں وہ ان شاء اللہ اچھا اور بہتر معاملہ ہے، اور آپ كے دوسرے نوجوان بھائى جو اٹھ كر چلے جاتے ہيں اور اجتماعى دعا ميں شريك نہيں ہوتے اگر تو اس كے نتيجہ ميں مسجد كى جماعت ميں كوئى خرابى پيدا ہوتى ہو، يا پھر دلوں ميں نفرت اور نمازيوں كے دلوں ميں بغض پيدا ہونے كا خدشہ ہو تو پھر اولى اور بہتر يہى ہے كہ وہ لوگوں كے ساتھ بيٹھے رہيں اور اكيلے ہى اپنے اذكار مكمل كر ليں.
ليكن اگر ان كے جانے سے مسجد كى جماعت ميں كوئى خرابى و فتنہ پيدا نہيں ہوتا تو ان كے اس عمل ميں ان شاء اللہ كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ مشروع ہے، اور اگر ان جانے والوں ميں كوئى ايسا شخص ہو جس كى اقتدا كى جاتى اور بات مانى جاتى ہے اور اس كے جانے سے اس فعل كو روكا جا سكتا ہے تو اس كے حق ميں مشروع يہى ہے كہ وہ وہاں سے نكل جائے اور لوگوں كوسنت كى تعليم دے.
خلاصہ يہ ہے كہ:
نماز كے بعد اجتماعى دعا سنت كے مخالف ہے؛ اور اس جگہ سے نكل جانا مشروع عمل ہے، خاص كر اس شكل ميں بلند آواز كرنے سے جو نمازيوں كو تشويش ہوتى ہيں؛ ليكن اكر وہاں سے نكل جانے كے نتيجہ ميں كوئى خرابى و فساد پيدا ہوتا ہو وہاں بيٹھنا اولى و بہتر ہے اور آپ خود اذكار مكمل كريں حتى كہ وہ جماعت فارغ ہو جائے.
واللہ اعلم .