الحمد للہ.
اول:
شرط پر معلق طلاق مثلا آپ نے اپنى بيوى سے كہا: اگر تو نے موبائل ميں محفوظ نمبر كےعلاوہ كسى اجنبى نمبر والى كال سنى اور جواب ديا تو تجھے طلاق . اس طرح طلاق ہونے كے متعلق اہل علم كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے:
جمہور فقھاء كرام كے ہاں شرط حاصل ہو جائے جس پر طلاق كو معلق كيا گيا ہے تو طلاق واقع ہو جائيگى.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں شيخ الاسلام ابن تيميہ وغيرہ كا بھى يہى اختيار ہے كہ اس معلق كردہ طلاق ميں تفصيل ہے:
اور يہ قائل كى نيت پر منحصر ہوگا: اگر تو اس نے اس سے قسم والا ارادہ كيا يعنى كسى چيز پر ابھارنا يا منع كرنا يا تصديق كرنا يا جھٹلانا تو اس كا حكم قسم والا ہوگا، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، اور قسم ٹوٹنے كى صورت ميں اس پر قسم كا كفارہ لازم ہے.
اور اگر اس سے قائل كا مقصد طلاق واقع كرنا ہے تو شرط پورى ہونے كى صورت ميں اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى اور اس كى نيت كا معاملہ تو اللہ ہى جانتا ہے جس پر كوئى بھى چيز مخفى نہيں، اس ليے مسلمان شخص كو اپنے پروردگار پر حيلہ سازى سے اجتناب كرنا چاہيے، اور اپنے آپ كو دھوكہ نہ دے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: تم ميرے ساتھ كھڑى ہو جاؤ وگرنہ طلاق، تو بيوى اس كے ساتھ كھڑى نہ ہوئى، كيا طلاق واقع ہو جائيگى ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر آپ كا اس كلام سے مقصد بيوى كو طلاق دينا نہ تھا بلكہ اسے اپنے ساتھ جانے پر ابھارنا اور تيار كرنا تھا، تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوئى، بلكہ علماء كے صحيح قول كے مطابق اس ميں قسم كا كفارہ لازم آئيگا.
اور اگر آپ كا ارادہ طلاق دينے كا تھا اور اس نے آپ كى بات نہيں مانى تو اس سے ايك طلاق واقع ہو گئى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 86 ).
دوم:
جس كام كے ہونے پر آپ نے طلاق معلق كى تھى اور اس ميں آپ كا قصد طلاق دينے كا تھا، اور وہ كسى بھى غير معروف نمبر كى كال وصول كرنے اور جواب دينا تھا، اور آپ كى نيت يہ تھى كہ اسے موبائل ميں فيڈ نمبر كے علاوہ ہر دوسرے نمبر كى كال كا جواب دينے سے روكا جا سكے، تو پھر موبائل ميں حفظ نمبر كے علاوہ كسى بھى نمبر كا جواب دينے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى.
اور اگر آپ كى نيت اور مراد يہ تھى كہ اسے ان نمبروں كى كال سننے سے منع كيا جائے جسے آپ نہيں جانتے اور جن پر آپ كو بھروسہ نہيں كيونكہ اس سے غلط كام ہوتے ہيں تو پھر آپ كى بہن كا فون سننے سے اسے طلاق واقع نہيں ہوگى.
اس ليے آپ اس مسئلہ ميں اپنى اصل نيت اور مراد ياد كريں، يعنى آپ نے طلاق كو كس شرط پر معلق كيا تھا، كيا آپ اس سے طلاق چاہتے تھے، يا كہ صرف اسے روكا چاہتے تھے، پھر آپ يہ بھى ياد كريں كہ آپ كى اپنى بيوى كو كس چيز سے اور كونسے نمبر سے روكنے كى نيت اور مراد تھى.
اگر آپ نے نيت طلاق واقع كرنے كى تھى اور آپ نے اسے بيوى كے موبائل ميں درج نمبر كے علاوہ كسى دوسرے نمبر سے روكنا چاہا تو اسے ايك طلاق ہوئى ہے، اور آپ عدت كے دوران اس سے رجوع كر سكتے ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ طلاق تيسرى نہ ہو.
اور اگر آپ كى نيت طلاق دينے كى نہيں تھى، بلكہ آپ اسے موبائل ميں درج نمبر كے علاوہ كسى اور نمبر كى كال وصول كرنے اور سننے سے روكنا چاہتے تھے تو آپ پر قسم كا كفارہ لازم آتا ہے.
اور اگر آپ كى نيت يہ تھى كہ اسے اس نمبر كى كال وصول كرنے سے منع كريں جسے آپ نہيں جانتے تو پھر آپ پر كچھ لازم نہيں آتا.
ہم آپ كو وصيت كرتے ہيں كہ كسى بھى حالت ميں آپ طلاق كے الفاظ مت نكاليں اور زبان پر نہ لائيں، كيونكہ طلاق دھمكى دينے اور خوفزدہ كرنے كے ليے مشروع نہيں كى گئى، عقلمند كو چاہيے كہ وہ اس طرح كے الفاظ انتہائى اور آخرى حل كى شكل ميں اپنى زبان سے نكالے، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے ندامت اٹھانى پڑے اور اس وقت نادم ہونے كا كوئى فائدہ ہى نہ ہو.د
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے وہ آپ كى راہنمائى فرمائے اور صحيح عمل كرنے كى توفيق بخشے.
واللہ اعلم .