الحمد للہ.
جو شخص تيس شعبان يا تيس رمضان يا تيس شوال يا تيس ذوالقعدہ كى رات چاند ديكھتا ہے تو اسے اپنے ملك كى رؤيت ہلال كميٹى يا ذمہ دار محكمہ كو اطلاع دينى چاہيے، ليكن اگر اس كے علاوہ كسى اور كے ديكھنے سے چاند كى رؤيت ثابت ہو چكى ہو.
تا كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے اس فرمان پر عمل كر سكے:
}اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو {المآئدۃ ( 2 ).
اور فرمان بارى تعالى ہے:
اپنى استطاعت كے مطابق اللہ كا تقوى اختيار كرو، اور سنو اور اطاعت كرو التغابن ( 16 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مسلمان شخص پر سمع و اطاعت ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1839 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" ميں تمہيں اللہ كے تقوى كى وصيت كرتا ہوں اور وصيت كرتا ہوں كہ اگر تم پر غلام بھى امير بنا ديا جائے تو اس كى سمع و اطاعت كرو "
اور يہ سب كو معلوم ہے كہ ولى الامر اور حكمران قضاء اعلى كميٹى كے ذريعہ سب مسلمانوں سے مطالبہ كرتا ہے كہ جو شخص بھى چاند ديكھے وہ فورا محكمہ كو اطلاع كرے.
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم چاند ديكھ كر روزہ ركھو "
اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر مناؤ، اور اس كو ديكھ كر ہى عبادت كرو، اور اگر تم پر ابر آلود ہو جائے تو پھر تعداد پورى كرو "
اور ان احاديث پر اللہ كى توفيق كے بغير عمل نہيں كيا جا سكتا، پھر جب تك مسلمان چاند ديكھنے ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كريں، اور ديكھ كر ذمہ دار محكمہ اور رؤيت ہلال كميٹى كو اطلاع نہ ديں تو ان احاديث پر عمل كرنا مشكل ہے.
لہذا جو شخص بھى چاند ديكھے تو وہ اس كے متعلق مخصوص محكمہ كو اس كى اطلاع دے، تو اس طرح شرعى احكام پر عمل ہو سكتا ہے، اور پھر يہ نيكى و تقوى ميں تعاون بھى ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى بتصرف
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز ر حمہ اللہ .