الحمد للہ.
" بلاشك و شبہ روزے اور عيد الفطر ميں مسلمانوں كا متحد ہونا ايك اچھى چيز ہے اور سب كو محبوب و پسند ہے اور جتنا ممكن ہو سكے شرعى مطلب بھى يہى ہے، ليكن يہ دو طريقوں سے ہو سكتا ہے:
پہلا:
سب مسلمان علماء حساب پر اعتماد كرنا چھوڑ ديں جس طرح كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور سلف امت نے حساب پر عمل نہيں كيا، اور وہ سب رؤيت ہلال پر يا پھر ايام كى تكميل پر عمل كرنے لگيں جيسا كہ صحيح احاديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوى ( 25 / 132 - 133 ) ميں علماء كا اتفاق بيان كيا ہے كہ رمضان اور عيد وغيرہ كے ثبوت ميں فلكى حساب پر اعتماد كرنا جائز نہيں.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں باجى رحمہ اللہ سے سلف رحمہ اللہ كا اجماع نقل كيا ہے كہ فلكى حساب پر اعتماد نہيں كيا جا سكتا، اور بعد والوں كے ليے ان كا اجماع حجت ہے "
فتح البارى ( 4 / 127 ).
دوسرا:
وہ رؤيت ہلال كے اثبات ميں كسى بھى ايسے ملك كى رؤيت پر اعتماد كا التزام كريں جو شريعت اسلاميہ پر عمل كرتا ہو، اور شرعى احكام كا نفاذ كرتا ہو، چنانچہ جب اس ملك ميں شرعى گواہيوں كے ساتھ رؤيت ہلال ثابت ہو جائے تو وہ اس پر عمل كريں تا كہ اس حديث پر عمل ہو:
تم چاند ديكھ كر روزہ ركھو اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر مناؤ، اور اگر آسمان ابر آلود ہو جائے تو تعداد پورى كرو "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہم پڑھے ہوئے نہيں اور نہ ہى حساب كتاب جانتے ہيں، مہينہ اتنا اتنا اتنا ہوتا ہے، اور آپ نے اپنے ہاتھ سے تين بار اشارہ كيا، اور تيسرى بار انگوٹھا بند كر ليا، اور فرمايا: مہينہ اتنا اتنا اتنا ہوتا ہے، اور اپنى سارى انگليوں كے ساتھ اشارہ كيا"
نبى كريم صلى اللہ كا مطلب تھا كہ مہينہ انتيس اور تيس يوم كا ہوتا ہے.
اس موضوع كے متعلق احاديث بہت ہيں، جن ميں ابن عمر اور ابو ہريرہ اور حذيفہ بن يمان رضى اللہ عنہم وغيرہ كى احاديث شامل ہيں.
اور يہ معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ خطاب اہل مدينہ كے ليے خاص نہيں، بلكہ يہ سارى امت كے ليے سب علاقوں اور ملكوں ميں بسنے والوں كو قيامت تك كے ليے حكم ہے.
اس ليے جب يہ دو چيزيں متوفر ہوں تو سب اسلامى مالك كے ليے رمضان اور عيد ميں اكٹھے ہونا ممكن ہو سكتا ہے ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ اللہ تعالى اس كى توفيق دے، اور انہيں شريعت اسلاميہ نافذ كرنے اور شريعت كى مخالف اشياء كا انكار كرنے كى توفيق دے.
اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ چيز ان پر واجب و ضرورى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
}قسم ہے تيرے پروردگار كى يہ اس وقت تك مومن نہيں ہو سكتے جب تك كہ آپس كے تمام اختلاف ميں آپ كو حاكم نہ مان ليں، اور پھر آپ ان ميں فيصلہ كر ديں ان ميں سے كسى كو اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ اسے قبول كر ليں {النساء ( 65 ).
اور اس موضوع ميں جتنى دوسرى آيات ہيں ان سے بھى يہى ثابت ہوتا ہے، اور بلاشك و شبہ يہ بھى ہے كہ امت مسلمہ كا اس شريعت اسلاميہ كا اپنے سارے معاملات ميں نافذ كرنے ميں ہى ان كى اصلاح اور ان كى نجات و كاميابى اور اكٹھے ہونے كا باعث ہے، اور اسى ميں ان كے دشمن كے خلاف ان كى مدد و نصرت اور دنيا و آخرت ميں كاميابى و سعادت پائى جاتى ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ان كا شرح صدر فرمائے، اور اس پر ان كى معاونت كرے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى سننے والا اور قبول كرنے والا ہے " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.