الحمد للہ.
جو شخص اتنى عمر كو پہنچ جائے كہ اس كى عقل ميں تغير آ جائے اور وہ ہوش و حواس كھو بيٹھے، تو اس سے نماز روزہ ساقط ہو جائيگا اور اس پر كوئى كفارہ نہيں، كيونكہ مكلف ہونے كے ليے عقل كا صحيح ہونا شرط ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تين قسم كے اشخاص سے قلم اٹھا ليا گيا ہے سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور پاگل و مجنون شخص سے حتى كہ وہ عقل والا ہو جائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4403 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1423 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3432 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2041 ) ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں اسے ابن جريج نے قاسم بن يزيد عن على رضى اللہ عنہ سے روايت كيا ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ميں يہ الفاظ زائد ہيں:
" الخرف "
اور اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
عون المعبود ميں ہے:
" الخرف " بڑھاپے كى بنا پر عقل ميں خرابى پيدا ہو جانا اس سے وہ بوڑھا شخص مراد ہے جس كى كبر سنى كى بنا پر عقل خراب ہو جائے، كيونكہ بوڑھا شخص عقل مختلط ہونے كى بنا پر تميز نہيں كر سكتا، اور يہ چيز اسے مكلف ہونے سے خارج كر ديگا، اور اسے جنون بھى نہيں كہا جاتا " انتہى
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" روزے كى ادائيگى اس وقت واجب ہوتى ہے جب اس ميں درج ذيل شروط ہوں:
اول: عقل.
دوم: بلوغت.
سوم: اسلام.
چہارم: قدرت و استطاعت
پنجم: مقيم ہونا.
ششم: عورت كا حيض و نفاس سے پاك ہونا.
اول: عقل اس كى ضد عقل كا ختم ہونا، چاہے وہ جنون كى بنا پر ختم ہو يا پھر بڑھاپے كى بنا پر يا كسى حادثہ كى وجہ سے اس كى عقل زائل ہو جائے اور احساس و شعور جاتا رہے تو عقل چلى جانے كى بنا پر اس شخص پر كچھ نہيں.
اس بنا پر وہ بوڑھا شخص جو اس حد تك پہنچ جائے كہ عقل اور ہوش و حواس كھو بيٹھے نہ تو اس پر روزہ ہے اور نہ ہى فديہ ميں كھانا كھلانا؛ كيونكہ اس كى عقل ہى نہيں " انتہى
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 220 / 4 ).
رہا ماضى كے عرصہ كے متعلق تو گزارش ہے كہ اگر تو وہ اسى حالت ميں تھى كہ ہوش و حواس قائم نہ تھے اور ادراك نہ ركھتى تھى تو پھر نہ تو اس پر روزہ ہے اور نہ ہى كفارہ، اور اگر اسے ہوش و حواس قائم تھے ليكن اس نے بيمارى كى وجہ سے روزے چھوڑے تو اس كى دو حالتيں ہيں:
1 ـ اگر يہ اس وقت ميں چھوڑے جب اس كى بيمارى سے شفايابى كى اميد تھى ليكن يہ بيمارى لمبى ہوتى چلى گئى تو اس پر كچھ نہيں، كيونكہ شفايابى ہونے كى صورت ميں اس پر قضاء تھى، ليكن اسے شفا ملى ہى نہيں.
ـ اور اگر اس وقت بيمارى سے شفايابى كى اميد نہ تھى تو واجب تھا كہ ہر روزے كے بدلے ايك مسكين كو كھانا بطور كفارہ ديا جاتا جو كہ علاقے كى خوراك كا نصف صاع ہے، اگر اس نے ادا نہيں كيا تو پھر آپ اب اس كے مال سے نكال ديں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ انہيں شفايابى سے نوازے اور آپ كو توفيق دے اور سيدھى راہ دكھائے.
واللہ اعلم .