اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

حرام کمائی کی اقسام، صحابہ کرام کی کمائی کے ذرائع اور افضل ترین ذریعہ معاش

سوال

میں نے MBA کی ڈگری افرادی قوت کے نظم و نسق کے تخصص کے ساتھ مکمل کر لی ہے، لیکن جب مجھے اللہ تعالی نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دی تو مجھے محسوس ہوا کہ میری یہ ڈگری میرے کسی کام کی نہیں ہے؛ کیونکہ اس کے درج ذیل اسباب ہیں: 1- اس ڈگری کی وجہ سے جتنے بھی کام کرنے کے مواقع ملیں گے وہ سب کے سب سودی لین دین لکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2- افرادی قوت کی ادارت کی تمام ملازمتیں اس بات کا مطالبہ کرتی ہیں کہ مرد و زن دونوں کو ملازم رکھنے کے لیے انٹرویو کریں اور انہیں ملازمت دیں، تو اس سے یہ بھی ہو گا کہ لڑکی کا ملازمت کے لیے سب سے پہلا انٹرویو محرم کے بغیر ہو گا، پھر ملازمت دینے کے بعد لڑکی کے ساتھ تنہائی میں میٹنگز اور ملاقاتیں بھی کرنی پڑیں گی کہ ملازم خاتون کی کارکردگی ، اور اس کی درجہ بندی کے متعلق تنہائی میں بات کرنی ہو گی، افرادی قوت کی ادارت کے حوالے سے دیگر کافی ساری ذمہ داریاں ہیں جن میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔ 3-افرادی قوت کے حوالے سے پائی جانے والی جتنی بھی ملازمت کی جگہیں ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جہاں مخلوط ماحول نہ ہو، بلکہ ان جگہوں پر خواتین اپنی خوبصورتی کا اظہار زیادہ کرتی ہیں، تو کیا میرے لیے ایسی ملازمت اس امید سے حاصل کرنا درست ہے کہ میں خود اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کے لیے عملی نمونہ بنوں گا، اور دوسروں کو بھی دین کی طرف دعوت دوں گا؟ یا میں بالکل اس ملازمت سے الگ تھلگ ہو جاؤں اور تلاش معاش کرے لیے اور ذرائع دیکھوں، چاہے وہاں میری آمدن اس سے کم تو ہو لیکن اس قسم کے فتنے وہاں موجود نہ ہو۔ میں آپ سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ یہ بھی بیان کریں کہ صحابہ کرام کا ذریعہ معاش کیا تھا؟ مجھے کچھ لوگوں نے بتلایا کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجارت کو نوکری پر ترجیح دی ہے، تو کیا یہ بات درست ہے؟ یا اس کی کوئی دلیل بھی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کچھ کام ایسے ہیں جو بذات خود حرام ہوتے ہیں، جیسے کہ سودی بینکوں میں ملازمت، شراب فروخت کرنے کی ملازمت وغیرہ، جبکہ کچھ کام بذات خود تو حرام نہیں ہوتے لیکن اس ملازمت کے ماحول میں غیر شرعی چیزیں پائی جاتی ہیں، مثلاً: مرد و زن میں اختلاط پایا جاتا ہے، یا ایسا لباس زیب تن کرنے کا کہا جاتا ہے جو شرعی طور پر جائز نہیں ہے، یا شریعت سے متصادم شکل و صورت اپنانے کا کہا جاتا ہے ، مثلاً: داڑھی مونڈنا وغیرہ، تو ان دونوں صورتوں میں سے کسی بھی کام کی اجازت مسلمان کے لیے نہیں ہے۔

تاہم دوسری قسم کے کاموں اور ملازمتوں کی حرمت یکساں نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف درجات ہوتے ہیں، تو سب سے زیادہ گناہ والی ملازمت سودی لین دین لکھنے والی ملازمت ہے، پھر اس کے بعد حرام چیزوں کی فروختگی یا انہیں تیار کرنے کی ملازمت ہے، پھر ایسی ملازمت ہے جس کا ماحول اچھا نہ ہو، یہ آخری قسم کی ملازمت کے بارے میں کسی قسم کی سستی کا شکار نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ خراب ماحول کا انسان کے دین اور اخلاقیات پر شدید منفی اثر پڑتا ہے؛ بالخصوص عورتوں کا فتنہ جو کہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ تھا، اور یہی فتنہ مسلمان مرد کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے، اس کا تذکرہ ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا ہے۔

اگر آپ کے ملک میں واقعی طور پر مخلوط ماحول عام ہے، اور کوئی بھی ملازمت اس کام سے خالی نہیں ہے، اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے ایسے ماحول میں ہونے سے فائدہ ہو گا کہ آپ برائیوں کے خاتمے یا کمی کا باعث بن سکتے ہیں، آپ اپنے ماتحت کام کرنے والے افراد کو نصیحت کر سکتے ہیں، انہیں نیکی کا حکم اور برائی سے روک سکتے ہیں، اسی طرح آپ ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جو آپ کو عورتوں کے فتنے سے محفوظ کریں کہ اگر آپ کی شادی نہیں ہوئی تو شادی کر لیں، عورتوں کو مت دیکھیں، نہ ہی ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھیں، اور اگر کچھ ملازم خواتین کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت محسوس کریں تو اپنے دفتر کا دروازہ کھلا رکھیں، اور انہیں اپنے قریب مت بٹھائیں وغیرہ۔۔۔

تو ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ آپ کے ایسی جگہ پر ہونے سے کچھ شرعی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، خرابیاں کم ہو سکتی ہیں، بجائے ایسی جگہوں کو بے دین یا دینی امور کا خیال نہ رکھنے والوں کے لیے کھلا چھوڑیں آپ کا وہاں ہونا بہتر ہے ؛ کیونکہ اگر آپ جیسے لوگ وہاں نہیں ہوں گے خرابیاں بڑھیں گی اور عام ہوں گی، ان کا مقابلہ کرنا بھی مشکل ہو گا، اور کتنے ہی ایسے اساتذہ اور مدرسین ہیں جنہوں نے مخلوط جامعات میں پڑھایا اور ان کی وجہ سے بہت سی خیر حاصل ہوئی، اور کئی خرابیاں پنپنے سے پہلے ہی ختم ہو گئیں۔

تو ہم اللہ تعالی سے امید کرتے ہیں کہ آپ بھی ان مصلحین میں سے ایک بن جائیں۔

لیکن ان سب باتوں کے ساتھ اگر کبھی کہیں آپ کو محسوس ہو کہ آپ خود اپنی دینی اقدار پر اپنی گرفت کمزور پا رہے ہیں اور آپ دھیرے دھیرے حرام کاموں کی جانب مائل ہوتے چلے جا رہے ہیں تو پھر آپ کے پاس ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ فوری طور پر آپ یہ ملازمت چھوڑ دیں، اور جو کوئی اللہ تعالی کے لیے کسی چیز کو چھوڑے تو اللہ تعالی اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے یہ بات ثابت ہے۔

دوم:
صحابہ کرام کے ذرائع معاش کے حوالے سے یہ ہے کہ ان کے ذرائع آمدن کافی زیادہ اور متنوع تھے، مثلاً: تجارت کے پیشے سے منسلک صحابہ کرام میں سیدنا ابو بکر صدیق، عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں۔ زراعت کے شعبے سے بھی کافی صحابہ کرام منسلک تھے کہ کچھ زرعی رقبوں اور باغات کے مالک تھے تو کچھ ان کھیتوں میں اجرت پر کام کرتے تھے تو اس طرح انصار اور مہاجر صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت اس پیشے سے منسلک تھی۔ کچھ صحابہ کرام سروسز کے شعبے سے بھی منسلک تھے مثلاً: لوہار، اور بڑھئی وغیرہ ۔ کچھ سرکاری سطح کی نوکریاں اور ملازمتیں ہوتی ہیں، مثلاً: تعلیم، زکاۃ وصولی، محکمہ عدالت وغیرہ، ایسے ہی جہاد کی وجہ سے ملنے والا مال غنیمت وغیرہ۔

لیکن ہماری زندگی اور ہمارے ہاں پائے جانے والے پیشوں اور صنعتوں کو صحابہ کرام کی زندگی سے ملا کر دیکھیں تو اس میں بہت زیادہ فرق ہے، اور لوگوں کے ہاں بھی مشہور ہے کہ : نئی رونما ہونے والی ہر چیز کی الگ ہی کہانی ہوتی ہے۔

سوم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے تجارت کو مزدوری پر فضیلت دینے کے حوالے سے ہمارے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔ ویسے اہل علم اس حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں تو کچھ اہل علم تجارت کو افضل قرار دیتے ہیں، اور کچھ زراعت کو ، جبکہ کچھ ہاتھ کی کمائی وغیرہ کو افضل قرار دیتے ہیں۔

تجارت کی فضیلت کے حوالے سے ایک حدیث تو ملتی ہے، لیکن وہ روایت ثابت نہیں ہے، اس ضعیف روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (10 میں سے 9 حصے رزق تجارت میں ہے۔) تفصیلات کے لیے دیکھیں: سلسلہ ضعیفہ: (3402)

جبکہ صنعت و تجارت کی فضیلت کے بارے میں روایت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا: کون سا ذریعہ معاش بہترین ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس میں آدمی اپنے ہاتھ سے کمائے اور ہر بیع مبرور) اس حدیث کو مسند احمد: (17265) میں محققین نے حسن قرار دیا ہے، اور البانیؒ نے اسے صحیح الترغیب: (1691) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی شخص اپنے ہاتھ سے کمائے ہوئے کھانے سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھاتا ، یقیناً سیدنا داود علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔) بخاری: (1966)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کی افضل ترین ذریعہ معاش کے حوالے سے مختلف آرا ہیں، چنانچہ علامہ ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں: بنیادی ذرائع معاش میں زارعت، تجارت اور صنعت ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی روشنی میں تجارت سب سے افضل ذریعہ معاش ہے، لیکن میرے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ سب سے افضل ذریعہ معاش زراعت ہے؛ کیونکہ یہ توکل کے زیادہ قرب کا باعث ہے۔

سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث کے بعد امام نووی رحمہ اللہ نے اپنا اختلافی نوٹ ذکر کیا کہ: درست بات یہ ہے کہ افضل ترین ذریعہ معاش اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔ انہوں نے اس کی مزید تفصیلات ذکر کرتے ہوئے کہا: اگر مزارع ہے تو یہ بھی افضل ترین ذریعہ معاش میں شامل ہے؛ کیونکہ یہ بھی انسان اپنے ہاتھ سے کرتا ہے، اور اس میں توکل کی خوبی اضافی طور پر موجود ہے، پھر زراعت کی وجہ سے لوگوں کو عمومی فائدہ پہنچتا ہے، جانوروں کا بھی فائدہ ہوتا ہے، پھر زراعت میں یہ چیز بھی پائی جاتی ہے کہ زمین سے حاصل ہونے والی فصل کا کچھ نہ کچھ حصہ بلا عوض کھایا جاتا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر وہ مال غنیمت ہے جو کافروں سے جہاد کے ذریعے حاصل کیا جائے، کیونکہ یہ تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام کا ذریعہ معاش تھا، اور یہ سب سے بہترین ذریعہ معاش ہے؛ کیونکہ جہاد کی وجہ سے کلمۃ اللہ بلند ہوتا ہے، اور دشمنان اسلام سر نگوں ہوتے ہیں، پھر جہاد کی بدولت حاصل ہونے والے اخروی فوائد بھی ہوتے ہیں۔

امام نووی کہتے ہیں: اگر کوئی شخص اپنے ہاتھ سے کام نہ کرتا ہو تو سابقہ ذکر کردہ توکل اور لوگوں کے لیے فوائد وغیرہ کی وجہ سے زراعت افضل عمل ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: زراعت کی فضیلت کی بنیاد متعدی فائدہ ہے، اور متعدی فائدہ صرف زراعت ہی میں منحصر نہیں ہے، بلکہ جو کام بھی ہاتھ سے کیا جائے گا اس کا فائدہ متعدی ہی ہو گا؛ کیونکہ ہاتھ سے وہی چیزیں تیار کی جاتی ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہو۔
لہذا صحیح بات یہ ہے کہ: افضل ترین ذریعہ معاش حالات اور افراد کی وجہ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم" ختم شد
" فتح الباری " ( 4 / 304 )

اس بنا پر: زراعت ایسے شخص کے لیے افضل ہو سکتی ہے جو کسی اور کام کی بجائے زراعت کے حوالے سے زیادہ تجربہ رکھتا ہو، اسی طرح صنعت کسی ایسے شخص کے لیے افضل ہو سکتی ہے جس کے پاس کوئی ہنر ہو، اور تیسرا شخص اگر تجارت اچھے انداز سے کر سکتا ہو تو اس کے لیے تجارت افضل ہے۔

اس لیے ہر انسان اپنی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھے کہ اس کے لیے کون سا کام مناسب ہے اور اسے کون سا کام بہترین سلیقے سے آتا ہے، لہذا اپنی صلاحیتوں سے اپنے آپ اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کرے۔ اللہ تعالی سب کو توفیق سے نوازے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب