الحمد للہ.
جی ہاں خاوند اوربیوی کے لیے شب زفاف میں ہم بستری کرنا اگروہ چاہیں توجائز ہے ، لیکن شریعت میں اس کی تعداد متعین نہیں کہ کتنی بار ہم بستری کی جائے ، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ حالات اوراشخاص کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے ، اورپھر جب قدرت وطاقت میں بھی فرق ہے توشریعت کی عادت نہیں کہ وہ اس طرح کے مسائل میں تعداد متعین کرے ۔
لیکن جماع اورہم بستری عورت کا حق ہے جوخاوند پر واجب ہے ، ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
کہ اگراس کا کوئي عذر نہیں تو وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرے ، امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا قول یہی ہے : دیکھیں المغنی لابن قدامۃ ( 7 / 30 ) ۔
حدیث شریف میں ہے کہ :
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے عبداللہ کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ تودن کوروزہ رکھتا اور رات کےوقت قیام کرتا ہے ؟
میں نے عرض کی کیوں نہیں اے اللہ تعالی کے رسول ( بات توایسی ہی ہے ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
توایسا نہ کر بلکہ روزہ رکھ اورافطار بھی ( یعنی کبھی چھوڑ بھی دیا کر ) اورقیام بھی کیا کرو اورسویا بھی کرو ، اس لیے کہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے اور تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے ، اورتیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے ) صحیح بخاری ۔
حدیث کی شرح میں ہے کہ :
یہ خاوند کے لائق نہیں کہ وہ عبادات میں اتنی کوشش کرے کہ وہ جماع اور کمائي کرنے کے حق سے بھی کمزور ہو جائے ۔ دیکھیں فتح الباری ۔
اورخاوند پر بیوی کا یہ حق ہے کہ خاوند اس کے پاس رات بسر کرے ۔
ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جب اس کی بیوی ہو تو اس پر لازم اورضروری ہے کہ اگراس کے پاس کوئي عذر نہیں تو وہ چار راتوں میں ایک رات اس کےپاس بسر کرے ۔ دیکھیں المغنی ( 7 / 28 ) اور کشف القناع ( 3 / 144 )
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اوربیوی کی حسب خواہش خاوند پر ہم بستری وجماع واجب ہے جب تک کہ خاوند کا بدن کمزور نہ ہو اوریا پھر اسے ایسا کرنا معیشت سے ہی روک دے ۔۔
اوراگروہ آپس میں تنازع کا شکار ہوجائيں توخاوند پرقاضی نفقہ کی طرح اسے بھی مقرر کردے گا اگروہ اس میں زيادتی کرتا ہو ۔ دیکھیں الاختیارات الفقھیۃ من فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ص ( 246 )
شرعی طور پرمطلوب اورمقصود تو یہ ہے کہ خاوند کی ہم بستری کے ذریعہ سے بیوی کوفحاشی اورغلط کام سے بچایا جائے اورہم بستری بھی بیوی کی خواہش اوراتنی ہو جس سے یہ بچاؤ ہوسکے ، تواس طرح اس کے لیے چار مہینہ یا اس سے زیادہ اورکم کی مدت مقرر کرنے میں کوئي وجہ نظرنہيں آتی بلکہ اس میں تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم بستری اتنی ہوجتنی کا حق خاوندادا کرسکے اوربیوی کی جتنی خواہش ہو ۔۔۔
یہ توعادی حالات اور خاوند کی موجودگی میں ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ رہائش پذیر ہو ۔
لیکن اگروہ سفریا کسی اورکام اورتجارت وغیرہ یا کسی مشروع عذر کی بنا پر غائب ہے تواس حالت میں خاوند کوکوشش کرنی چاہیے کہ وہ بیوی سے زيادہ مدت غائب نہ رہے ۔
اوراگراس کے غائب ہونے کا سبب مسلمانوں کے کسی نفع کی وجہ سے ہو مثلا وہ جہادفی سبیل اللہ میں نکلا ہوا ہے یا پھر مسلمانوں کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہے تو اس میں ضروری ہے کہ اسے چار ماہ کے اندر اندر اپنے گھر واپس آنے کی اجازت دینی چاہیے تا کہ وہ کچھ مدت اپنے بیوی بچوں میں گزارے اورپھر دوبارہ سرحدوں پر یا جہاد میں واپس چلا جائے ۔
عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کی سیاست اورحکم یہی تھا کہ انہوں نےفوجیوں اور سرحدی محافظوں کے لیے یہ مقرر کیا تھا کہ وہ اپنی بیویوں سے چار مہینے تک دور رہيں جب یہ مدت پوری ہوجاتی تو انہیں واپس بلالیا جاتا اوران کی جگہ ہر دوسروں کو بھیج دیا جاتا تھا ۔
دیکھیں کتاب : المفصل فی احکام المراۃ تالیف الشیخ زیدان ( 7 / 239 )
اللہ تبارک وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .