الحمد للہ.
حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق بدعى ہے، اور اس كے واقع ہونے ميں اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے، جيسا كہ سوال نمبر ( 72417 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، اور جب حيض كا خون بند ہو جائے اور عورت نے غسل نہيں كيا تو اس كے ليے طلاق مباح اور واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ وہ اس وقت حائضہ عورت شمار نہيں ہوتى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنى ميں ذكر كيا ہے كہ:
" جب حيض كا خون بند ہو جائے تو حيض كى بنا پر طلاق دينے كى حرمت زائل ہو جاتى ہے، اس ليے اگر خاوند اسے طلاق دے دے تو يہ طلاق جائز ہے اور واقع ہو جائيگى چاہے اس نے غسل نہ بھى كيا ہو، امام احمد اور امام شافعى رحمہما اللہ كا مسلك يہى ہے؛ كيونكہ خون رك جانے كى بنا پر وہ پاك ہو چكى ہے.
اور زاد المستقنع ميں درج ہے:
" جب خون بند ہو جائے اور عورت نے غسل نہ كيا ہو تو تو روزے اور طلاق كے علاوہ كچھ مباح نہيں ہوتا "د
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" خون بند ہو جانے كے بعد طلاق كے جواز كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" اسے حكم دو كہ وہ اس سے رجوع كرے، اور پھر اسے طلاق طہر ميں دے يا پھر حمل ميں "
اور خون رك جانے پر عورت پاك ہو جاتى ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 384 ).
اور شيخ محمد المختار شينقيطى حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كو حيض كى حالت ميں طلاق دينا جائز نہيں تو اگر خون بند ہو گيا اور غسل نہيں كيا اور طلاق خون بند ہونے كے بعد اور غسل سے پہلے ہوئى تو كيا حكم ہے ؟
وہ كہتے ہيں: طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ طلاق كو غسل كے ساتھ مؤقت نہيں كيا گيا، ليكن باقى ممنوعات كے ليے غسل كرنا ضرورى ہے، مثلا جماع اور اس كا مسجد ميں داخل ہونا، اسى طرح مسجد سے گزرنا اور مسجد ميں ٹھرنا وغيرہ دوسرى حيض كى حالت ميں ممنوعات " انتہى
ماخوذ از: شرح زاد المستقنع.
واللہ اعلم.