ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

نفقہ و اخراجات اور لباس ميں بيويوں كے مابين برابرى كا وجوب

111899

تاریخ اشاعت : 20-01-2010

مشاہدات : 5077

سوال

كيا مرد كے ليے كسى ايك بيوى كو دوسرى پر نفقہ يا رہائش ميں فضيلت دينا جائز ہے، كيونكہ دوسرى كے پاس اتنا كچھ ہے جو اسے كافى ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مرد كے ليے اپنى بيويوں كے درميان نفقہ يعنى اخراجات اور لباس اور رہائش اور بارى كى تقسيم ميں عدل و انصاف كرنا واجب ہے.

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ اگر خاوند ہر بيوى كو اس كے كافى اخراجات ديتا ہے تو اس كو حق حاصل ہے كہ وہ كسى ايك كو فضيلت دے، اور اس كے اخراجات يا سكن ميں وسعت پيدا كرے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر مرد ہر ايك كو واجب كردہ اخراجات اور لباس وغيرہ ديتا ہے تو پھر اس پر ان دونوں ميں نفقہ اور لباس ميں برابرى كرنا واجب نہيں، امام احمد رحمہ اللہ نے ايك شخص جس كى دو بيوياں تھيں كے متعلق فرمايا:

" اس كو حق حاصل ہے كہ وہ ايك كو دوسرى پر نفقہ اور شہوات اور رہائش ميں فضيلت دے، جب دوسرى كے پاس كفائت كرنے والے اخراجات اور رہائش وغيرہ ہو، اور وہ اس كے ليے دوسرى بيوى سے زيادہ قيمتى لباس خريد سكتا ہے، اور يہ كفايت ميں ہو " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 10 / 242 ).

اور امام احمد رحمہ اللہ سے ايك دوسرى روايت وارد ہے كہ:

" نفقہ اور لباس وغيرہ ميں خاوند پر عدل كرنا واجب ہے، اور اسے كسى ايك كو فضيلت دينے كا حق نہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 270 ).

شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا بيويوں كے مابين نفقہ اور لباس وغيرہ ميں برابرى كرنا واجب ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" صحيح وہى روايت ہے جسے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے كہ اس ميں برابرى كرنا واجب ہے، كيونكہ برابرى نہ كرنا ظلم و ستم كہلاتا ہے اس ليے نہيں كہ اس نے واجب كردہ كى ادائيگى نہيں كى، بلكہ اس ليے ظلم كہلاتا ہے كہ ہر وہ عدل جو بيويوں كے درميان كرنے كى قدرت ركھتا ہے وہ واجب ہے، بخلاف اس كے جس كى استطاعت اور قدرت نہيں مثلا وطئ اور جماع اور اس كے اسباب وغيرہ " انتہى

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب اشرف عبد المقصود ( 2 / 692 ).

ہم نے سوال نمبر ( 34701 ) كے جواب ميں اس كے متعلق مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى نقل كيا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب