الحمد للہ.
وقف کرنے والے کے مقصد اور شرط کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے، اس لیے وقف کرنے والے کے مقصد اور شرط سے ہٹ کر وقف مال میں تصرف جائز نہیں ہے، الا کہ کوئی ضرورت ہو۔
ضرورت کی مثال یہ بھی ہے کہ: وقف سے استفادہ نہ کیا جا رہا ہوں، تو ایسی صورت میں اس جگہ منتقل کیا جائے جو وقف کرنے والے کے مقصد جیسی ہو۔
تو چونکہ یہ کولر مسجد کے لیے وقف ہوا تھا، اور اب اس مسجد میں اس سے استفادہ ممکن نہیں رہا تو پھر اسے کسی اور مسجد میں منتقل کر دیا جائے جہاں اس سے استفادہ ممکن ہو۔
اور اگر کوئی ایسی مسجد نہ ملے جہاں کولر کی ضرورت ہو تو اسے ایسی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں لوگوں کو کولر کی ضرورت ہو ، جیسے کہ عسکری چھاؤنی وغیرہ۔
اس بنا پر:
فوجی چھاؤنی میں اسی وقت کولر منتقل ہو سکتا ہے جب کوئی ایسی مسجد نہ ہو جہاں کولر کی ضرورت ہے۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
"کیا مسجد کے لیے وقف شدہ کسی چیز کو کہیں اور منتقل کرنا جائز ہے؟ مثلاً: مسجد کی الماری مسجد والوں کے لیے تنگ ہو گئی ہے ، اور مسجد میں اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔
تو آپ نے جواب دیا: ہاں منتقل کرنا جائز ہے، جب منتقل کرنے میں زیادہ بہتری ہو، مثلاً: مسجد کے قالین، یا الماری وغیرہ کی ضرورت نہ رہے تو ممکن ہے کہ اسے کسی اور مسجد میں منتقل کر دیا جائے اور اگر ممکن نہ ہو تو اسے فروخت کر کے رقم مسجد پر لگا دی جائے، اور اگر مسجد اوقاف کے تحت ہے تو اوقاف اس بارے میں بہتر فیصلہ کرے گی۔" ختم شد
"لقاءات الباب المفتوح" (168)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (11247 ) اور (50407 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
لیکن اسے اس وقت تک فروخت کرنا درست نہیں ہے جب تک اسے کسی اور جگہ پر استعمال کرنا ممکن ہے؛ کیونکہ وقف کنندہ نے اس کولر کو وقف کرتے ہوئے لوگوں کو ٹھنڈے پانی سے مستفید کرنے کا ارادہ کیا تھا، اور یہاں پر وقف کنندہ کے اس ارادے کا خیال کرنا بھی ضروری ہے۔
واللہ اعلم