الحمد للہ.
ان دونوں ناموں کی تفسیر ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں بیان کی گئ ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے اللہ توظاھر ہے تیرے اوپر کوئ چیز نہیں ، اور تو باطن ہے تیرے پرے کوئ چیزنہیں ) صحیح مسلم ۔
تو ظاہر کی تفسیر ظہور بمعنی علو کی ہے ، تو اللہ تعالی ہر چيزسے بلند ہے ، اوربعض نے اس کی تفسیرظہور بمعنی بروزکی ہے ، تو وہ ہے جوعقلوں کے لۓ اپنے دلائل اوراپنے وجود کے براھین اوروحدانیت کے دلائل ساتھ ظاہر ہے ، تو وہ اس پر دلالت کرنے والے دلائل کے ساتھ ظاہر ہے ، اور اس کے افعال اس کی معرفت و علم کی طرف لے جاتے ہیں ، تو وہ ظاہر ہے عقل ودلائل کے ساتھ اس کا ادراک ہوتا ہے ، اور باطن ہے اس لۓ کہ وہ غیر مشاہد ہے دنیا میں سب اشیاء کی طرح اس کا مشاہدہ نہیں ہوسکتا اللہ تعالی اس سے بلند وبالا ہے ۔
اور اللہ تعالی اپنی حکمت اور پیدا کرنے اور اپنی مصنوعات کے سا تھ ظاہر ہے اوران سب نعمتوں کے ساتھ جو کہ اس نے کی ہیں انہیں اس کے علاوہ کوئ نہیں دیکھ سکتا ، اورباطن ہے اور اپنی صفات کی کیفیات کےلحاظ سے وہ عقول والوں سے پردہ میں ہے ۔
اوربعض علماء کی طرف یہ منسوب ہے کہ انہوں نے باطن کی تفسیر قریب کی ہے ، ان کا قول ہے کہ : وہ عرش پرہوتے ہوۓ بھی اپنے علم اورقدرت کے اعتبارسے ہرچیزسے قریب ہے ۔
اورباطن کی تفسیر باطنی امور کے ساتھ بھی کی گئ ہے ، تو وہ باطن کوجاننے والا اورایسے ہی وہ ظاہر کوبھی جاننے والا ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے : یحی – جوکہ فراء ہیں – وہ کہتے ہیں کہ وہ علم کے لحاظ سے ہرچیز پر ظاہر ہے اورعلم کے لحاظ سے ہرچیز پر باطن ہے ۔
اوربعض نے اس کی تفسیر یہ کی ہےکہ : وہ حواس کے ساتھ غیر مدرک ہے جیسا کہ اشیاء مخلوقہ کا حواس کے ساتھ ادراک ہوسکتا ہے ۔
اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ : وہ مخلوق کی آنکھوں اور اوھام سے چھپا ہوا ہے ، تو کوئ آنکھ اس کا ادراک نہیں کرسکتی اورنہ ہی کوئ وھم اس کا احاطہ کرسکتا ہے ۔
تو باوجود اس کے کہ یہ سب معانی اورتفاسیر صحیح ہیں لیکن اولی اور بہتر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کاالتزام کیا جاۓ وہ سب سے بہتر ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سے اللہ تعالی کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔
ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ : وہ اپنے علاوہ ہرچيز پر ظاہر ہے ، اوروہ ہر چیز پر بلندوبالا ہے کوئ چيز بھی اس سے بلند نہیں ، تو رہ ہر چیز کے باطن کوجانتا ہے توکوئ چیزبھی کسی کے اس سے زیادہ قریب کوئ نہیں ۔
اور ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے یہ ذکر کیا ہے کہ : جس نے بھی اللہ تعالی کی فوقیت کا انکار کیا تو اس نے اللہ تعالی کے اسم " الظاہر " کے لوازم کا انکار کیا ، توجو صرف قدروقیمت میں فوقیت رکھے اس کا ظاہرہونا صحیح نہیں ، جس طرح کہ یہ کہا جاۓ کہ سونا چاندی کے اوپر ہے ، کیونکہ یہ فوقیت صرف ظہور کے ساتھ متعلق ہے ، بلکہ یہ ہوسکتا ہےکہ جس پر فوقیت دی گئ ہے وہ فوقیت دیۓ جانے والے سے زیادہ ظاہر ہو ، اورنہ ہی یہ صحیح نہیں کہ صرف غلبے اورقھر میں ظاہر ہے اگرچہ اللہ سبحانہ وتعالی قھر وغلبے میں بھی ظاہر ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی کے لۓ ہراعتبار سے علو مطلق ہے ، علو ذات اور علو قدر اورعلو قھر میں بھی ۔
اور اللہ سبحانہ کا اسم " الباطن " نیچے ہونا کا متقاضی نہیں ، کیونکہ سفول ، نیچے ہونا یہ نقص ہے اوراللہ سبحانہ وتعالی نقائص سے پاک ہے ، تو بیشک اللہ عزوجل علی اوراعلی ہے ، اوروہ عالی ہونے کے علاوہ نہیں ہوسکتا ۔
اور ظاہرکو باطن سے مربوط کیا گیا ہے ، اور ظہور کا علو کے ساتھ مقارنہ ہوتاہے تو جتنی بھی کوئ چيز اعلی اوربلند ہوگی وہ زیادہ ظاہر ہوگی ، اورعلو اور ظھور سے ایک اور معنی بھی متضمن ہے ، تو اسی لۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ تجھ سے اوپر کوئ چيز نہیں ، اوریہ نہیں فرمایا کہ تجھ سے ظاہرکوئ چیز نہیں ، اس لۓ کہ ظہور علواور فوقیت کو متضمن ہے ۔
اوراس معنی میں اللہ تعالی کاپورے عالم کا احاطہ کرنا اور اس کی عظمت کا ثبوت ہے اوراس کی عظمت کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی کا اسم باطن اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ اللہ عزوجل ہر چھپی ہوئ اور راز کی باتوں اور باریک سے باریک اشیاء پر بھی مطلع ہے ۔ .