سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اپنے آپ كو مسلمان ظاہر كيا تو لڑكى نے اس سے عرفى شادى كر لى اور بچہ بھى پيدا ہوا ايسا كرنے اور بچے كا حكم كيا ہو گا ؟

112903

تاریخ اشاعت : 27-10-2009

مشاہدات : 7705

سوال

ميں ستائيس برس كى مسلمان لڑكى ہوں، مجھے دينى التزام كا كچھ علم نہ تھا، يا اس كى طرف راہ كا بھى علم نہ تھا، بہر حال ميں نے ايك عيسائى نوجوان سے محبت كرنا شروع كر دى اور مجھے اس نے بتايا كہ وہ مجھ سے شادى كرنے كے ليے مسلمان ہو رہا ہے، ليكن وہ اپنے اسلام كو ظاہر نہيں كرنا چاہتا كيونكہ چرچ والے اس كو قتل كر دينگے.
ہم نے آپس ميں ايك ورقہ لكھا جسے " عرفى زنا يا نكاح " كا نام ديا جاتا ہے، ليكن مجھے اس وقت نكاح كے معنى كا علم نہ تھا، اور اس لڑكے نے ميرے گھر والوں كے علم كے بغير مجھ سے دخول اور جماع بھى كيا، ميں بہت خوش تھى كہ اس نے ميرى وجہ سے اسلام قبول كر ليا ہے، مجھے حمل بھى ہو گيا اور ميں نے اس كے اسلام كے اظہار كا انتظار كيا ليكن وہ بہت ہى گندا اور برا شخص نكلا اس نے مجھے بتايا كہ وہ مسلمان نہيں ہوا اور نہ ہى اس نے ميرے ساتھ شادى كو ظاہر كيا، اور امريكہ چلا گيا.
اس كے بعد مجھے احساس ہوا كہ ميرا انجام قريب ہے، اور جو كچھ ميں نے كيا ہے اللہ اس كا مجھ سے انتقام لينے والا ہے ليكن اللہ تعالى نے ميرا پردہ ركھا جو كہ اللہ كى جانب سے عظيم احسان تھا، ميں نے پورى كوشش كى كہ كسى طريقہ سے اس بچہ سے چھٹكارا حاصل كر لوں، ليكن ايسا نہ ہو سكتا، ميں ولادت سے قبل گھر سے بھاگ گئى اور بچہ پيدا ہوا تو ميں نے اسے كچھ غريب و فقير افراد كے حوالے كر ديا اور انہيں اس كے اخراجات كے ليے كچھ رقم بھى دى.
اللہ كى قسم پھر اللہ كى قسم ميں نے ہر قسم كے گناہ سے اللہ كے ہاں توبہ كر لى، اور اب پردہ بھى كرنے لگى ہوں اور روزے ركھتى ہوں اور نماز پنجگانہ كى پابندى كرنے لگى ہوں، اس كے چار برس بعد ميرے ليے ايك دين پر عمل كرنے والے نوجوان كا رشتہ آيا تو ميں نے بالكل صراحت كے ساتھ اس كو سب كچھ بيان كر ديا، ليكن ميں اس سے حيران ہوئى كہ اس كے باوجود اس نے مجھے نہيں چھوڑا اور ميرا ساتھ ديا اور ميرا پردہ ركھا اور ميں نے اس سے شادى كر لى.
اب وہ ميرے ساتھ بہت اچھا معاملہ كر رہا ہے؛ كيونكہ وہ دين پر عمل كرتا ہے، اب ہمارى زندگى ايمان سے بھرپور ہے اور تقوى و دين پايا جاتا ہے، اب مجھے معلوم نہيں كہ اس بچے كا حكم كيا ہے كيا وہ بالفعل ميرا بچہ ہے يا كہ نہيں، اور يہ كيسے اور ميرى اس حالت كا شرعى حكم كيا ہے، اور كيا ميرے اس خاوند سے بچوں كا بھائى ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس طرح كے قصے اور كہانياں جو شريعت كے مخالفين كے ساتھ پيش آتے ہيں وہ ہمارے ليے اسلامى احكام و تعليمات سے اور زيادہ وابستگى اور ثقہ كا باعث بنتے ہيں، كيونكہ دين اسلام تو ايسے احكام اور تعليمات لايا ہے جو انسان اور معاشرے كے ليے اصلاح كرتے ہيں.

چنانچہ مرد و عورت كے مابين حرام تعلقات معاشرے ميں تباہى اور بربادى لاتے ہيں، اور بعض افراد تو اس وجہ سے اپنے دين كو ترك كر ديتے ہيں، اور كچھ دوسرے اسى وجہ سے اپنى دينى وابستگى كو ختم كرتے ہوئے دين پر عمل كرنا چھوڑ ديتے ہيں تو استقامت كھو بيٹھتے ہيں.

اگرچہ اس سوال كرنے والى لڑكى نے تو اپنے بچے كو كسى خاندان كے سپرد كر كے محفوظ ركھا ہے، ليكن اس كے علاوہ دوسرى عورتوں ميں كوئى تو اپنے پيٹ ميں ہى بچے كو قتل كر كے ختم كر ديتى ہے، يا پھر پيدا ہوتے ہى مار ڈالتى ہے.

اور بعض اوقات تو بچے كو قتل كرنے كا طريقہ اتنا شنيع اور خوفناك ہوتا ہے كہ دل كانپ اٹھتا ہے كوئى اسے گندگى اور كوڑے كے ڈبے ميں پھينك ديتى ہے جہاں وہ بلك بلك كر سردى اور بھوك اور سانس رك جانے سے ہلاك ہو جاتا ہے، اور پھر يہى نہيں بلكہ وہ گندگى جب اٹھا كر آلات كے ذريعہ كاٹى جاتى ہے اور اسے جلا كر راكھ كيا جاتا ہے تو اس بچے كى كيا حالت ہوتى ہو گى !

يہ سب برائى كى نحوست ہے جس كے ارتكاب ميں ان لوگوں نے سستى و كاہى كى اور اس كا ارتكاب كيا حتى كہ يہ گناہ اور قبيح عمل ہوا.

پرحكمت اسلامى احكام ميں يہ حكم بھى شامل ہے كہ شريعت اسلاميہ نے عقد نكاح صحيح ہونے كے ليے عورت كے ولى كے موافق و راضى ہونے كى شرط ركھى ہے، كيونكہ ولى ہى عورت كے ليے زيادہ بہتر شخص اختيار كر سكتا ہے، اس ليے كہ عورت كى عقل اور حسن تصرف پر ـ غالبا ـ نرمى و عاطفت غالب آ جاتى ہے، اور وہ اس ميں تميز نہيں كر سكتى كہ كونس شخص سچا ہے اور كون دھوكہ باز.

چنانچہ عقد نكاح ميں ولى كى شرط كا ہونا بہت عظيم مصلحت كى خاطر ہے، ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ لوگ ان احكام ميں شريعت كى مخالفت كرتے نظر آتے ہيں، اور پھر اس مخالفت كا انجام سوائے انتہائى افسوس كے اور كچھ نہيں ہوتا پھر وہ ندامت كرتے اور انتہائى قسم كے غمزدہ نظر آتے جس كا كوئى فائدہ نہيں ہوتا.

دوم:

ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں جس نے آپ كو توبہ كرنے كى توفيق نصيب فرمائى، ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے، اور آپ كو مزيد ہدايت دے اور آپ كى راہنمائى فرمائے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كرتا ہے، اور آپ كو چاہيے كہ كثرت سے نيك و صالح اعمال كريں، اور مالى صدقات كا بھى اہتمام كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور يقينا ميں بہت زيادہ بخشنے والا ہوں اس شخص كو جو توبہ كرتا ہے، اور ايمان لاتا اور اعمال صالحہ كرتا اور پھر ہدايت اختيار كرتا ہے طہ ( 82 ).

سوم:

آپ كا اس نصرانى شخص سے نكاح باطل تھا، كيونكہ كسى بھى مسلمان عورت كے ليے كسى غير مسلم شخص سے كسى بھى حالت ميں نكاح كرنا حلال نہيں، اور آپ نے اسے زنا كا وصف دے كر صحيح كيا ہے، كہ يہ زنا تھا نكاح نہيں.

پھر اگر فرض بھى كر ليا جائے كہ بالفعل اس نے اسلام قبول بھى كر ليا تھا، تو بھى وہ نكاح جو ولى اور گواہوں كے بغير ہوا ہو جس ميں خاوند اور بيوى ايك دوسرے كو يہ نكاح چھپا كر ركھنے كا كہيں يہ نكاح عام علماء كے ہاں باطل ہے.

اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 111797 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں ہم نے اس سلسلہ ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا فتوى نقل كيا ہے.

چہارم:

اس نصرانى سے آپ كا پيدا شدہ بيٹا آپ كا حقيقى بيٹا ہے اور وہ آپ كى طرف منسوب ہو گا، اور آپ كى سارى اولاد كا ماں جايا بھائى كہلائيگا، ليكن آپ كے ليے يہ جائز نہيں كہ اس بچے كو آپ اپنے موجودہ خاوند كى طرف منسوب كريں، كيونكہ يہ اس كا بيٹا نہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

عصر حاضر ميں زنا سے پيدا شدہ بچے كا اسلام ميں كيا حال ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اس كا حكم اس كى ماں كا حكم ہے، علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق وہ اپنى ماں كے تابع ہے، اگر ماں مسلمان ہے تو بچہ بھى مسلمان ہو گا، اور اگر وہ كافرہ ہے تو بچہ بھى كافر ہے، اور وہ بچہ ماں كى طرف منسوب ہو گا نہ كہ زنا كرنے والے مرد كى طرف، اور بچے كى ماں كى جانب سے جو زنا ہوا ہے اس كا بچے كو كوئى نقصان و ضرر نہيں ہو گا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كے گناہ كا بوجھ نہيں اٹھائيگى . انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 343 ).

پنجم:

آپ كے موجودہ خاوند نے جو كچھ كيا ہے وہ ايسى چيز ہے اس پر اس كا جتنا بھى شكريہ ادا كيا جائے كم ہے، اور اميد كى جاتى ہے كہ وہ شخص دنيا و آخرت ميں مستور افراد ميں شامل ہو گا؛ كيونكہ اللہ عزوجل كا وعدہ ہے كہ جس كسى نے بھى اپنے كسى بھائى كا پردہ ركھا اللہ تعالى اس كا پردہ ركھتا ہے.

اور آپ كو چاہيے كہ جتنى جلدى ہو سكے اس خاندان سے اپنا بچہ واپس لے ليں، اور آپ خود اس كى تربيت و پرورش كريں اور آپ كے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى نيكى كو مكمل كرتے ہوئے آپ كو يہ بچہ واپس لانے پر ابھارے اور تيار كرے، اور اس كى تعليم و تربيت اور پرورش كى رغبت دلائے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے خاوند كو اجر عظيم سے نوازے اور اس كا فضل اور بھى زيادہ كرے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب