الحمد للہ.
نكاح صحيح ہونے كے ليے دو عادل مسلمان گواہ ہونا شرط ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى رحمہ اللہ روايت كيا اورعلامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں اسے صحيح كہا ہے.
گواہ كے ليے شرط ہے كہ وہ مرد اور عاقل و بالغ ہو، اس ليے بچے كى گواہى صحيح نہيں ہوگى، اور نہ ہى عقد نكاح ميں عورت كى گواہى صحيح ہوگى، اور اس طرح پاگل اور مجنون بھى گواہ نہيں بن سكتا.
شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:
" عقد نكاح اسى صورت ميں ہوگا جب اس ميں دو عاقل و بالغ اور عادل مسلمان جو كلام كرنے اور سننے والے بھى ہوں گواہى ديں، چاہے بيوى اہل ذمہ سے تعلق ركھتى ہو پھر بھى ان گواہوں كے بغير نكاح صحيح نہيں چاہے وہ گواہ ظاہرى طور پر ہى عادل ہوں " انتہى
ديكھيں: منتھى الارادات ( 2 / 648 ).
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" حنفيہ شافعيہ مالكيہ اورحنابلہ كے ہاں عقد نكاح كے گواہ كا مكلف ہونا شرط ہے، يعنى دونوں گواہ عاقل و بالغ ہوں، اس ليے بالاجماع پاگل و مجنون كى گواہى قبول نہيں ہوگى، اور نہ ہى بچہ گواہ بن سكتا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم اپنےمردوں ميں سے دو مردوں كوگواہ بناؤ .
اور اس ليے بھى كہ پاگل اور بچہ گواہى كے اہل ميں شامل نہيں ہوتے .... " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 41 / 296 ).
عقد نكاح ميں گواہ شرط ہے چاہے نكاح لفظى طور پر منعقد ہوا ہو يا پھر رخصتى كى استطاعت نہ ہونے پر صرف عقد نكاح تحرير كيا گيا ہو يا پھر ولى نے زبانى طور پر كيا ہو.
اس بنا پر عقد نكاح ميں بچے كى گواہى صحيح نہيں ہوگى.
واللہ اعلم .