سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کنیت رکھنے کے متعلق احکام ، مسائل اور علمی نکات

سوال

ہمارے ہاں ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کے نام کنیت پر رکھ دیتے ہیں، مثلاً: ام ہانی، ام سلمہ وغیرہ تو کیا یہ صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یہ اچھی بات ہے کہ مسلمان شرعی احکامات پر بھر پور توجہ دے اور جزویات کی تفصیلات میں بھی شرعی احکامات جان کر عمل کرے، یہی عمل توجہ کا اصل ثمرہ ہے، چنانچہ کنیت کے حوالے سے کچھ مسائل ہیں جن پر خصوصی توجہ ہونا لازم ہے، ہم انہیں بیان کر کے سوال کا تفصیلی جواب دیں گے، اور کچھ وضاحت بھی پیش کریں گے:

  • کنیت، ہر وہ نام جس کا آغاز “ابو” یا “ام” سے ہو، جبکہ اسم اور لقب کا آغاز ان سے نہیں ہوتا۔
  • کنیت کے ذریعے ہمیشہ مخاطب کی مدح اور توصیف ہو گی، جبکہ لقب مذمت اور تعریف دونوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
  • اگر کوئی فاسق، کافر اور بدعتی بھی ہو تو اس کی کنیت بھی پکاری جا سکتی ہے کہ اگر انہیں کنیت کے علاوہ کسی اور نام سے پہچانا ہی نہیں جاتا، یا کنیت تب بھی لی جا سکتی ہے جب کوئی مصلحت ہو، یا ان کے ناموں میں شرعی قباحت ہو تو ان کی کنیت پکاری جا سکتی ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ  ترجمہ: ابو لہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے، اور وہ خود بھی تباہ ہو گیا۔ [المسد: 1]

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“باب ہے کافر، بدعتی اور فاسق کو کنیت کے ساتھ پکارنے کے بارے میں کہ جب اسے کنیت کے ساتھ ہی پہچانا جاتا ہو ، یا نام کے ذکر سے کسی خرابی کا خدشہ ہو، اسی تناظر میں فرمانِ باری تعالی ہے: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ترجمہ: ابو لہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے، اور وہ خود بھی تباہ ہو گیا۔ [المسد: 1] ابو لہب کا نام عبد العزی تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ صرف کنیت کے ساتھ ہی مشہور تھا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ اس کا نام بت کے نام پر تھا اس لیے نام نہیں لیا گیا۔۔۔ میں [امام نووی رحمہ اللہ ] کہتا ہوں کہ: حدیث میں ابو طالب کی کنیت کا ذکر کئی بار ہوا ہے، ان کا نام عبد مناف تھا، اسی طرح صحیح حدیث میں ایک کافر کی کنیت کا ذکر یوں ملتا ہے کہ: (یہ ابو رغال کی قبر ہے) اس سے ثابت ہوا کہ کافروں کی کنیت کا ذکر احادیث میں موجود ہے، تو یہ سب صورتیں وہی استثنائی ہیں جن کا ہم نے باب کے عنوان میں تذکرہ کیا ہے، اگر ان میں سے کوئی وجہ بھی نہ پائی جائی تو صرف نام ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ ” ختم شد
” الأذكار ” ( ص 296 )

  • کنیت رکھتے ہوئے یہ لازم نہیں ہے کہ اولاد کے نام پر ہی کنیت ہو، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی جامد چیز یا حیوان کی طرف نسبت کر کے کنیت پکاری جائے، جیسے کہ “ابو تراب” اور حیوان کی مثال میں “ابو ھر” یا “ابو ہریرہ” شامل ہیں۔
  • کنیت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ صاحب اولاد کی کنیت میں نسبت اولاد کی طرف ہی ہو، اس کی مثال: “ابو بکر صدیق” ہیں، حالانکہ آپ کی اولاد میں سے کوئی بھی “بکر” نامی بیٹا نہیں ہے۔
  • یہ ضروری نہیں ہے کہ صاحب اولاد کی کنیت بڑے بیٹے کے نام پر ہو، اگرچہ افضل یہی ہے کہ بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھی جائے۔

سیدنا ہانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ جب اپنی قوم کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میری قوم کے لوگوں کو سنا کہ وہ کسی کو ابو الحکم کنیت کے ساتھ پکار رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلا کر پوچھا: (یقیناً اللہ تعالی کی ذات “الحکم” ہے وہی فیصلے بھی کرتا ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے، تمہاری کنیت ابو الحکم کیوں ہے؟) تو اس نے کہا: میرے قوم میں جب کسی چیز پر اختلاف ہو جاتا تو وہ میرے پاس فیصلے کے لیے آتے ، میں ان میں فیصلہ کر دیتا ہوں جسے دونوں فریق بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ تو بہت اچھا عمل ہے، تو کیا تمہاری کوئی اولاد ہے؟) اس نے کہا: میرے بچوں کے شریح، مسلم، اور عبد اللہ نام ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان میں سے سب سے بڑا کون ہے؟) تو میں نے کہا: شریح، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم ابو شریح ہو) اس حدیث کو ابو داود: (4955) اور نسائی: (5387) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
کیا کسی کی چھوٹے بیٹے کے نام پر کنیت رکھ کر اسی کنیت پر اسے پکارنا جائز ہے؟ کیونکہ بڑا بیٹا بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا؟

تو انہوں نے جواب دیا:
“افضل یہی ہے کہ انسان کی کنیت بڑے بیٹے کے نام پر ہو، چاہے بیٹا زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو، اور اسی کنیت کے ساتھ اسے پکارا جائے، لیکن اگر کوئی اسے چھوٹے بیٹے کے نام پر کنیت رکھ کر پکارے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، چاہے بڑا بیٹا زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔” ختم شد
” فتاوى اللجنة الدائمة ” ( 11 / 487 )

  • صاحب اولاد کی کنیت بیٹی کی طرف نسبت کرتے ہوئے بھی رکھی جا سکتی ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “باب ہے بیانِ جواز میں کہ مرد کی کنیت ابو فلانہ یا ابو فلاں، اور عورت کی کنیت ام فلاں یا ام فلانہ ہو سکتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ ان تمام صورتوں میں کوئی پابندی نہیں ہے، صحابہ و تابعین اور تبع تابعین وغیرہ پر مشتمل امت کے افضل ترین سلف صالحین میں سے متعدد افاضل کی کنیت بچیوں کے نام پر تھیں، مثال کے طور پر: سیدنا عثمان بن عفان کی تین کنیت تھیں: ابو عمرو، ابو عبد اللہ اور ابو لیلی۔ اسی طرح سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ اور آپ کی اہلیہ کی کنیت ام درداء کبری تھی ۔۔۔” ختم شد
” الأذكار ” ( ص 296 )

  • مندرجہ بالا احکامات میں مرد و خواتین یکساں طور پر مشترک ہیں۔
  • کنیت کسی ایسے شخص کی بھی ہو سکتی ہے جس کی اولاد نہیں ہو سکتی، اولاد نہ ہونا کنیت رکھنے سے مانع نہیں ہے۔

جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری تمام سہیلیوں کی کنیت ہے، میری نہیں ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے بیٹے [جو کہ بھانجے تھے] عبد اللہ بن زبیر کے نام پر اپنی کنیت رکھ لو۔) تو انہیں ساری زندگی فوت ہونے تک “ام عبد اللہ ” کی کنیت سے پکارا گیا۔
مسند احمد: ( 43 / 291 ) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے اور البانی نے اسے ” السلسلة الصحيحة ” ( 132 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔

  • مرد یا عورت کی شادی کے بعد اور اولاد ہونے سے پہلے بھی کنیت رکھی جا سکتی ہے، اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔

الف- جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی کنیت ابو عبد الرحمن رکھ دی تھی قبل ازیں کہ ان کے ہاں کوئی اولاد ہو۔
اس روایت کو امام حاکم نے: ( 3 / 353 ) اسی طرح امام طبرانی نے ” المعجم الكبير ” ( 9 / 65 ) ، میں روایت کیا ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ” فتح الباری ” ( 10 / 582 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ب- امام بخاری نے “الادب المفرد” میں ایک عنوان قائم کیا کہ: “باب ہے اولاد پیدا ہونے سے پہلے کنیت رکھنے کے بارے میں”، پھر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ رحمہ اللہ کی کنیت “ابو شبل” رکھی تھی، حالانکہ ابھی ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی۔
اس اثر کو الشیخ البانی نے صحیح ادب المفرد : (848) میں صحیح قرار دیا ہے۔

  • چھوٹے بچے کی شیر خواری کی عمر میں یا پیدا ہوتے ہی کنیت رکھنا جائز ہے چاہے بچہ ہو یا بچی۔

اہل علم نے چھوٹے بچوں کی کنیت رکھنے کے متعدد فوائد ذکر کیے ہیں، مثلاً: بچے کی شخصیت مضبوط ہوتی ہے، اور بچے کو برے القابات سے نہیں پکارا جاتا، اسی طرح اس میں حسن فال بھی ہے کہ بچہ ان شاء اللہ زندہ بھی رہے گا اور اس کی اولاد بھی ہو گی۔

چھوٹے بچے کی کنیت رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

جیسے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق سب لوگوں سے اچھا تھا، میرا ایک بھائی تھا جسے ابو عمیر کہتے تھے اور مجھے لگتا ہے کہ ابھی اس نے دودھ پینا چھوڑا ہی تھا، تو جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم آتے اور اسے دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے: (ابو عمیر تمہارے نغیر پرندے نے کیا کیا؟) ابو عمیر اس پرندے سے کھیلا کرتے تھے۔
اس حدیث کو امام بخاری: (5850) اور مسلم : (2150) نے روایت کیا ہے۔

نغیر: چڑیا جیسا پرندہ ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ بلبل کو نغیر کہتے ہیں۔

اس حدیث پر امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ: “باب ہے بچے اور بڑے آدمی کی اولاد ہونے سے پہلے کنیت رکھنے کے بارے میں ”

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں متعدد فوائد ہیں: ان میں سے چند یہ ہیں کہ: لا ولد شخص اور بچے کی کنیت رکھنا جائز ہے، یہ جھوٹ نہیں ہے۔” ختم شد
” شرح مسلم ” ( 14 / 129 )

اسی طرح ” الموسوعة الفقهية ” ( 35 / 170 ، 171 ) میں ہے کہ:
“علمائے کرام کہتے ہیں کہ: عرب بچوں کی کنیت حسن فال کے طور پر رکھتے تھے کہ بچہ بڑا ہو گا اور اس کی اولاد بھی ہو گی، نیز اس لیے بھی کنیت رکھتے تھے کہ بچے کو برے القاب سے نہ پکارا جائے۔

ابن عابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کوئی اپنے چھوٹے بچے کی کنیت ابو بکر وغیرہ رکھ تو کچھ لوگ اسے مکروہ سمجھتے ہیں، جبکہ اکثریت مکروہ نہیں سمجھتے؛ کیونکہ بچے کی کنیت رکھنے کا مقصد صرف اچھی فال لینا ہوتا ہے۔” ختم شد

ان ساری تفصیلات سے بالکل واضح ہو گیا کہ سوال میں مذکور چیز کا جواب یہ ہے کہ بچوں کی مناسب اور اچھی کنیت رکھنا؛ چاہے ابھی دودھ پی رہے ہوں جائز ہے چاہے بچہ ہو یا بچی، اور اگر کنیت صحابی یا صحابیہ والی ہو تو یہ بھی اچھی چیز ہے، بری بات نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب