جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

خاوند سے اختلافات ، اورصالحہ بیوی کس طرح بننا ممکن ہے

سوال

میں امریکہ سے تعلق رکھتی ہوں اورنئي نئي مسلمان ہوئي ہوں ، میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئي ہے کہ میں مرد کو اپنے اوپر حاکم نہيں بننے دیتی ، اب مشکل یہ ہے کہ میرا خاوند امریکی نہیں اورہم آپس میں بہت ہی زيادہ متصادم رہتے ہیں ۔
مجھے اس سے زيادہ یومی امور اور قوانین کے بارہ میں علم ہے ، اوراس کی انگلش بھی کوئي اچھی اورٹھیک نہیں ، اس لیے بعض اوقات مجھے اس کے لیے کچھ تشریح بھی کرنا پڑتی ہے ، اس لیے کہ وہ اپنے ملک کے حالات کا عادی ہے اور اپنی ثقافت پر ہی قائم ہے ۔
عام مقامات پر غالبا میں ہی بات چیت کرنے کا فرض ادا کرتی ہوں جوکہ اسے غضبناک کرتا ہے اوراسے اچھا نہيں لگتا ، لیکن میں محسوس کرتی ہوں کہ یہ ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس پر چل کر ہم غالب معاملات کو صحیح طور پر مکمل کرسکتے ہیں ۔
اب ہمارے درمیان بہت زيادہ اختلافات ہونے لگے ہیں ، میں یہ نہیں جانتی کہ میں کس طرح ایک اسلام کومطلوب بیوی بن سکتی ہوں ، کیونکہ میں ابھی اسلامی تعلیمات کی تعلیم کے مرحلہ میں ہوں ، اورمیری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ میں اسے تبدیل کس طرح کروں ؟
اورمشکلات کوکس طرح کم کرسکتی ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

ہم اللہ تعالی کا شکرادا کرتے ہیں کہ اس نے آپ کوقبول اسلام کی توفیق دی اوراس کی ھدایت نصیب فرمائی ، اوراللہ تعالی نعمتوں میں سے اپنے بندے پر یہ نعمت ہی سب سے بڑی ہے ۔

ہم آپ کے علم میں لانا چاہتےہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کے خاوند پر آپ کے کچھ حقوق مقرر کیے ہیں ، اورآپ پر بھی آپ کے خاوند کے کچھ حقوق واجب کیے ہیں ، اس کی تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 10680 ) کا مراجعہ کریں ۔

اس لیے ضروری ہے کہ آپ پر اللہ تعالی نے جوکچھ خاوند کے حقوق واجب کیے ہیں اسے ادا کرتی رہیں ، اورشریعت اسلامیہ نے خاوند کے حقوق کوبہت ہی عظیم بنایا ہے اس لیے کہ اس میں ایک مسلمان گھرانے کی تعمیر میں بہت ہی اہمیت پائي جاتی ہے ۔

اورپھر اس پراللہ تعالی نےاپنے خاندان کی ضروریات و مصالح اوراس کی دیکھ بھال واجب کی ہے ۔

اورایک مسلمان عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ معاملات کرنے میں عقل مندی اورحکمت سے کام لے ، توانسان کوعادتا اچھی اورنرم بات اپنا اسیر اورقید بنا لیتی ہے ، اوراچھے معاملات بھی اسے اپنا مقید کرلیتے ہیں ، تواگر اس طرح کی چيز اس کی شریک حیات اوردکھ درد کی ساتھی سے صادر ہوتو اس کا اثر تو بہت ہی زيادہ ہوتا ہے ۔

اورپھرایک عقلمند عورت ہراپنے معاملات اورتصرفات میں ہراس چيز سے دور رہتی ہے جواس کے خاوند کوبری لگتی ہو ، اورہر فعل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے جواس کے خاوند کوپریشان کرتا ہو ، اوروہ یہ کوشش نہیں کرتی کہ اپنی شخصیت کوخاوند پر ٹھونسے ، کیونکہ مرد کے پاس توسلطہ ہے اوراس پر ذمہ داری ڈالی گئي ہے ، بعض معین موقعوں پر اسے نقص اورکمی کا شعور دلانا اسے غصہ دلاتا ہے اورتصرف میں عدم احسان کی طرف لے جاتا ہے ، کچھ تونے تو یہ کہا ہے کہ :

مثالی بیوی وہ ہے جسے ازدواجی موافقت کا فن آتا ہو ، اورخاوند کی اطاعت اوراس کے احترام اور اپنی کامیاب برابر شخصیت کی تعبیر میں توازن قائم کرسکتی ہو ۔

اورآپ کا اس کی طرف سے لوگوں سے بات چيت کرنا شرعا جائز ہے – اس لیے کہ وہ آپ کی قومی زبان نہیں جانتا – لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا گیا ہے کہ اس طرح کے فعل اورتصرف کرنے میں آپ حکمت سے کام لیں ، آپ اس کام کے کرتے وقت اسے یہ احساس نہ ہونے دیں کہ اس میں کمی یا نقص ہے ، اوراس کی اہمیت ہی نہیں بلکہ لوگوں سے بات چیت میں بار بار آپ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس سے مشورہ لیں اوراس کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئي بھی فیصلہ نہ کریں ۔

اورجس سے آپ بات کررہی ہوں وہ آپ کے خاوند کی قدر و قیمت محسوس کرے ، اوریہ بھی ممکن ہے کہ آپ اسے یہ محسوس کرائيں کہ وہ اپنی زبان میں آپ سے بھی زیادہ ماہر ہے اوراسے فوقیت ہے ، اور آپ دونوں مل کر ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں ، آپ انگلش سکھانے میں اس کا تعاون کریں اوروہ آپ کواپنی زبان سکھانے میں آپ کا تعاون کرے ۔

ہم تو آپ کو یہی نصیحت کریں گے ، اوریہی ایک چيز ہے جو اس کے غصہ کوروک سکتا ہے یا پھر اس طرح کے تصرفات سے اسے باز رکھ سکتا ہے ، اوریہ معاملہ صرف کچھ وقت تک ہو گا حتی کہ وہ انگلش سیکھ لے اوراپنے معاملات خود حل کرنے لگے ۔

دوم :

آپ کوایک صالحہ اورنیک بیوی بننے کے لیے ضروری ہے کہ جوکچھ اللہ تعالی نے آپ پر واجب کیا ہے اس کی معرفت رکھیں اوراس پر عمل کریں ، اوریہ بھی ضروری ہے کہ آپ فاضلہ قسم کی عورتوں اورصحابیات کے اخلاق معاملات کونبھانے میں اچھے اوراحسن انداز کو بھی جانیں ، یہ چيز آپ سے کوشش اورجھد کی محتاج ہے حتی کہ آپ اس کی عادی ہوجائيں لیکن یہ چيز کوئي مستحیل نہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کچھ اس طرح فرمایا ہے :

( علم توسیکھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے ، اورحلم وبردباری تواس کے اختار کرنے سے ہوتی ہے ، اورجوکوئي بھی خیر تلاش کرتا ہے اسے خیر عطا کی جاتی ہے ، اورجوکوئي بھی شر اوربرائي سے بچتا ہے اسے اس سے بچایا جاتا ہے ) اسے دار قطنی نے " الافراد " میں روایت کیا ہے ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو صحیح الجامع ( 2328 ) میں حسن قرار دیا ہے ۔

اسی طرح کی کچھ صفات اوراخلاق کے بارہ میں ایک عقل مند ماں نے اپنی بیٹی کوشادی سے قبل وصیت کی تھی جوکہ ایک جامع وصیت ہے ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کوان صفات کی حامل بنائے ۔

ماں نے اپنی بیٹی کووصیت کرتے ہوئے کہا :

میری پیاری بیٹی تواس گھر کوچھوڑ رہی ہے جہاں تو پیدا ہوئي ، اورتیرا وہ گھروندا جہاں توایک ایسے شخص کے پاس جارہی ہے جسے تو جانتی بھی نہیں اورایسے قرین اورساتھی کے پاس جارہی ہے جس سے تومانوس و مالوف نہ تھی ، تواس کے لیے لونڈی بن کررہے گي تووہ تیرا غلام بن جائے گا ، اوراس کے لیے دس خصلتوں کی حفاظت کرنا یہ تیرے لیے زخیرہ بنے گا :

پہلی اوردوسری خصلت یہ ہے کہ :

خاوند کے لیے قناعت کے ساتھ عاجزی کرنا ، اوراس کی اچھی طرح سمع و اطاعت کرنا ۔

تیسری اورچوتھی :

اس کی آنکھ اورناک کے بارہ میں خیال رکھنا ، تو اس کی آنکھ تیرے کسی قبیح کام پر نہ پڑے اورتجھ سے وہ اچھی خوشبو ہی سونگے ۔

پانچویں اورچھٹی :

اس کی نیند اورکھانے کے اوقات کا خیال کرنا ، اس لیے کہ بھوک کی حرارت جلن پیدا کرتی ہے ، اورنیند کی کمی غضبناک کردیتی ہے ۔

ساتویں اورآٹھویں :

اس کے مال کی حفاظت کرنا اوراس کے بچوں اورعزت کا خیال رکھنا ۔

نویں اوردسویں :

مال میں اچھے انداز سے تصرف کرنااس کی بقاء اورسہارا ہے ، اورعیال میں اس کا سہارا حسن تدبیر ہے ۔

سوم :

خاوند پر بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے رب کا تقوی اورڈر اختیار کرتے ہوئے اپنی بیوی کے حقوق میں کمی نہ کرے ، اورجس طرح اللہ تعالی نےاس پر بیوی کے حقوق واجب کیے ہیں انہیں ادا کرے ، اوراسے یہ جاننا ضروری ہے کہ لوگ کئي قسم کےہوتے ہیں ، اورجسے وہ جانتا ہے بہت سے دوسرے اس سے جاہل ہیں ، اورجس سے وہ جاہل ہے اسے بہت سے دوسرے جانتے ہیں ۔

اوراس کے ساتھ معاملات نپٹانے اور اس کی نفع مند چيز کا بتانے اورخیر کی طرف راہنمائي کرنے اور اس کے لیے ترجمہ کرنے کے لیے کسی ایسے شخص سے جس پر بھروسہ بھی نہ ہو اوراس کی امانت پر بھی یقین نہ ہو ایسے شخص سے بہتر تواس کی بیوی ہے جو کہ سب کام کرتی ہے ، اورپھر علم اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ اسے حاصل نہ کیا جائے ، اورعلم کی راہ کوشش اورجھد اوراجتھاد کی راہ ہے ۔

آپ اپنے خاوند کو نصیحت کریں کہ غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھا کرے ، اورغصہ بھی اس وقت ہوا کرے جب اللہ تعالی کی حرمت کوپامال کیا جائے اس حالت میں غصہ ایک اچھی چيز ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب