الحمد للہ.
اول:
پوری دنیا میں مشہور و معروف کمرشل انشورنس کے معاہدوں کی حرمت میں کوئی شک نہیں ہے، یہ سب شریعت کے منافی ہیں، ان معاہدوں میں غرر اور جوا پایا جاتا ہے، بلکہ کچھ صورتوں میں لوگوں سے زبردستی وصولی بھی کی جاتی ہے، یعنی ان معاہدوں میں متعدد قسم کی شرعی قباحتیں موجود ہیں، اس لیے ان کے بارے میں علمائے کرام کی متفقہ رائے بننا کوئی تعجب والی بات نہیں ہے، اگر کوئی اس سے ہٹ کر موقف رکھے تو وہ شاذ اور غیر معتبر ہے۔
دوم:
آپ کے والد صاحب کی انشورنس کمپنی میں ملازمت اور کمائی کے بارے میں یہ ہے کہ: ہم انہیں سب سے پہلے تقوی الہی اپنانے کی یاد دہانی کرواتے ہیں؛ کیونکہ اب ان کی عمر 70 سال ہونے والی ہے! لیکن اب بھی وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس حرام کام کو ترک نہیں کر رہے، حالانکہ ان کے لیے ایسی ملازمت میں لگے رہنا بالکل بھی جائز نہیں تھا۔ اگر اب بھی اللہ تعالی سے نہیں ڈرتے تو کب ڈریں گے؟ اور اللہ تعالی کے غضب کا باعث بننے والے اعمال کب چھوڑیں گے؟ کیا انہیں سال کے آخر تک زندہ رہنے کا یقین ہے؟ انہیں یہ کیسے پسند ہے کہ اتنی عمر ہونے کے باوجود ان کا خاتمہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی حالت میں ہو!؟ ایسے شخص کو تو محلے کی مسجد میں ہونا چاہیے، نمازیں پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، دعائیں کریں، ایسے شخص کو تو چاہیے کہ مسجد الحرام میں ڈیرے لگائے، عمرہ، اعتکاف اور وہاں پر اسی طرح کی دیگر عبادات بجا لائے، اس عمر میں جوے کی کمپنیوں میں ملازمت کرنا نہیں بنتا! اس عمر میں یہ نہیں ہونا چاہیے کہ گاہک کیسے پھنسانے ہیں! یا پہلے والے گاہکوں کو کیسے برقرار رکھنا ہے، تو ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی انہیں جلد از جلد ہدایت عطا فرمائے، اور ان کا آسانی کے ساتھ خاتمہ بالخیر فرمائے۔
حرام ملازمت کے ذریعے کمائے گئے مال کے بارے میں یہ ہے کہ: انہوں نے جو کچھ حرمت کا علم ہونے سے پہلے کمایا ہے وہ تو حلال ہے، چنانچہ اس مدت تک کی تنخواہیں اور بونس وغیرہ سب حلال ہے۔ اور جو حرمت کا علم ہونے کے بعد کمایا ہے چاہے تنخواہوں کی شکل میں ہو یا بونس تو وہ سارے کا سارا ہی حرام ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: ( 15 / 46 )میں ہے:
"آپ بینک میں جتنی مدت ملازمت کرتے رہے ہیں اس کے بارے میں ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کا یہ گناہ معاف فرمائے، اور اگر آپ کو بینک میں ملازمت کا حکم معلوم نہیں تھا تو بینک میں کام کے عوض آپ نے جتنی بھی تنخواہیں لی ہیں انہیں لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
الشیخ عبد العزیز بن باز الشیخ عبد الرزاق عفیفی الشیخ عبد اللہ غدیان الشیخ عبد اللہ قعود" ختم شد
یہ فتوی ہر ایسی ملازمت پر لاگو ہوتا ہے جس میں مال کسبی طور پر حرام ہے اور اس ملازم کو اس کی حرمت کا علم نہیں ہے، یا اسے کسی ایسے شخص نے اس کے جواز کا فتوی دیا جس پر وہ اعتماد کرتا تھا۔ لیکن علم ہونے سے پہلے والے مال کی حلت کے لیے ایک شرط ہے جو ابھی تک آپ کے والد نے پوری نہیں کی، اور وہ ہے حرام ملازمت چھوڑ دینا، چنانچہ سابقہ وصول شدہ مال کی حلت کے لیے اللہ تعالی نے یہ شرط مقرر کی ہے کہ حرام ذریعے کو چھوڑ دیا جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ
ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ باز آ گیا تو پہلے جو کچھ کمایا وہ اسی کا ہے۔[البقرة:275]
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ: اگر کسی نے سود کی حرمت کا علم ہونے سے پہلے جو بھی سود وصول کیا تو وہ اس کے لیے حلال ہے بشرطیکہ آئندہ سود لینے سے توبہ کر لے اور باز آ جائے۔" ختم شد
" تفسير سورة البقرة " ( 3 / 377 )
یہی بات دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام نے بھی کہی ہے، ان کا فتوی پڑھنے کے لیے آپ سوال نمبر: (106610) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
چنانچہ جب سودی لین دین کی حرمت کا علم ہو جانے کے بعد جو بھی سود وصول کرے گا تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہو گا؛ کیونکہ سودی لین دین حرام ہے۔
سوم:
حرام کمائی کرنے والے شخص کے زیر کفالت افراد مثلاً: بیوی اور بچوں کے بارے میں یہ ہے کہ اگر حرام کمانے والا شخص اپنی حرام کمائی سے ان پر خرچ کرتا ہے تو بیوی اور بچوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ؛ حرام کمانے کا گناہ صرف اسی شخص پر ہو گا جس نے حرام کمایا ہے کسی اور پر کچھ نہیں ہو گا، یہاں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کی دعوت کیوں قبول کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کا کھانا بھی کھایا تھا حالانکہ یہودی حرام طریقوں سے کمائی کرتے تھے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک سوال پوچھا گیا:
میرے والد کو اللہ تعالی معاف فرمائے، وہ ایک سودی بینک میں ملازم ہیں، اب ہمارے لیے کیا حکم ہے کہ ہم اپنے والد کی کمائی کھا پی سکتے ہیں؟ یہاں یہ بھی واضح کر دیں کہ ہمارے گھر کا ایک اور ذریعہ آمدن بھی ہے اور وہ ہے میری بڑی بہن کی تنخواہ؛ کیونکہ وہ بھی ملازمت پیشہ ہیں، تو کیا یہ ٹھیک ہے کہ ہم اپنے والد کی کمائی سے خرچہ نہ لیں بلکہ اپنا خرچہ بڑی بہن کی کمائی سے لیں، واضح رہے کہ ہمارا خاندان کافی بڑا ہے۔ یا یہ ہے کہ میری بہن پر ہمارے اخراجات لازم نہیں ہیں اس لیے ہم صرف اپنے والد کی کمائی سے ہی لے سکتے ہیں؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا:
"میرا موقف یہ ہے کہ: آپ اپنا خرچہ اپنے والد سے ہی لیں، آپ کے لیے وہ حلال ہے اور آپ کے والد کے لیے حرام ہے؛ کیونکہ آپ اپنا خرچہ صحیح مد میں لے رہے ہو؛ کیونکہ آپ کے والد کے پاس مال ہے آپ کے پاس تو کچھ بھی نہیں ، اس لیے تم اپنے والد سے خرچہ صحیح لے رہے ہو، اگرچہ اس کا گناہ، بوجھ اور وزر تمہارے والد پر ہو گا، لیکن اس گناہ کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دیکھیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک یہودی سے تحفہ قبول کرتے ہیں، یہودیوں کا کھانا بھی کھاتے ہیں، ایسے ہی یہودی کے ساتھ لین دین بھی کرتے ہیں، حالانکہ یہودی سودی لین دین اور حرام کھانے میں مشہور تھے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے حلال طریقے سے لیا ہے، لہذا جب صحیح طریقے سے کوئی کسی چیز کا مالک بن جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دیکھیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی لونڈی بریرہ، اُنہیں صدقے میں گوشت دیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی وقت گھر آئے تو ہنڈیا میں گوشت پکتا ہوا پایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھانا طلب کیا، تو آپ کو کھانا پیش کیا گیا لیکن اس میں گوشت نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا مجھے چولہے پر ہنڈیا نظر نہیں آئی تھی؟! تو اہل خانہ نے کہا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! لیکن اس ہنڈیا میں موجود گوشت بریرہ کو صدقے میں ملا تھا، اور آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور [بریرہ کی طرف سے] ہمارے لیے ہدیہ ہے)تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ گوشت تناول فرمایا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر صدقے کا مال کھانا حرام ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بطور صدقہ نہیں لیا بلکہ بطور تحفہ اور ہدیہ لیا ہے۔
تو ان بہن بھائیوں کے لیے ہم کہیں گے: تم اپنے والد کی کمائی کھل کر کھا پی سکتے ہو، سودی کمائی کا وبال تمہارے والد پر ہی ہو گا، الا کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے، اور وہ توبہ کر لے، کیونکہ توبہ کرنے والے کی توبہ اللہ تعالی قبول فرماتا ہے۔" ختم شد
" اللقاء الشهري " ( 45 / سوال نمبر: 16 )
اور اس حلال و حرام مخلوط مال کا حکم یہ ہے کہ: جو چیز وہ خود آپ کو اس مال میں سے دے دیں وہ آرام سے کھا پی لیں چاہے نقدی مال ہو، یا مکان اور زمین کی شکل میں ہو۔
اور ان کی وفات کے بعد ان کا ترکہ دیکھیں : اگر ترکے میں کوئی ایسا مال ہے جس کا اصلی مالک موجود ہے اور آپ کے والد نے وہ مال ظلم کرتے ہوئے لیا تھا تو وہ اس کے اصل مالک تک پہنچا دیں، اور اگر اس مال کا کوئی مالک نہیں ہے یا آپ کی اس تک رسائی نہیں ہے تو پھر اس مال کے برابر مقدار رفاہی کاموں میں خرچ کر دیں۔ یہ محرم لذاتہ مال کے بارے میں ہے۔ جبکہ کسبی حرام مال کمانے والے کے لیے تو حرام ہے لیکن تمہارے لیے حلال ہے، جیسے کہ پہلے الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی گفتگو میں گزر چکا ہے، تاہم اگر آپ اس سے پرہیز کریں تو یہ آپ کی پرہیز گاری ہے کہ اسے بھی اچھے کاموں میں لگا دیں، یہ آپ پر لازم نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایک سود خور کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ اپنے ترکے میں دولت اور اولاد چھوڑ گیا ہے، اولاد کو اپنے والد کے ذریعہ آمدن کا علم ہے، تو کیا اولاد بطور وراثت اس مال کو اپنی ملکیت میں شامل کر سکتی ہے یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جس مقدار کے بارے میں بچوں کو علم ہے کہ یہ سود ہے تو اسے نکال دے، چنانچہ اگر ممکن ہو تو ان کے اصل مالکوں کو واپس کر دے ، اور اگر ممکن نہ ہو تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، باقی ماندہ مال اس پر حرام نہیں ہو گا۔
لیکن ایسی مقدار جس میں اشتباہ پایا جاتا ہے ، اور قرض کی ادائیگی یا بچوں کے واجب اخراجات کی مد میں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے تو پھر اسے نہ لینا مستحب ہے۔ اور اگر والد نے اس مال کو ایسے سودی معاملات کے ذریعے حاصل کیا تھا جس کے بارے میں کچھ فقہائے کرام رخصت کے قائل ہیں تو پھر ایسی صورت میں وارث کے لیے اس سے استفادہ کرنا جائز ہے۔ اور اگر حلال و حرام دولت دونوں ہی ملی ہوئی ہیں ، کسی کی مقدار کا علم نہیں ہے ، تو پھر اسے نصف ، نصف شمار کر لے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 29 / 307 )
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: ( 26 / 332 )میں ہے:
"والد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ بچوں کی پرورش حرام مال سے کرے، سائل کو یہ بات معلوم ہے۔ جبکہ بچوں کے بارے میں یہ ہے کہ اس حرام مال کی کمائی میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے، اس کا گناہ صرف ان کے والد پر ہے۔
اور اگر سارے کا سارا گھر ہی چوری شدہ مال سے بنایا گیا ہے تو اب وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن کی چوری کی تھی انہیں ان کا مال واپس کریں، یہ اس وقت ہے جب اصل مالکوں کا علم ہو، اور اگر پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کون لوگ تھے تو پھر ایسے چوری شدہ مال کو رفاہی کاموں میں لگا دے، مثلاً: مساجد کی تعمیر کروا دے، غریبوں پر صدقہ کر دے اور اس میں نیت یہ رکھے کہ یہ اصل مالک کی طرف سے صدقہ ہے۔ اور یہی حکم تب بھی لاگو ہو گا کہ جب مکان کا کچھ حصہ چوری کے مال سے تیار کیا گیا ہو اور کچھ دادا کی وراثت سے تیار کیا گیا ہو، لہذا اگر چوری والے مال کے اصل مالکان کا علم ہو تو وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چوری شدہ مال کے برابر رقم اصل مالکوں تک پہنچائیں، اور اگر اصل مالکوں کا علم نہیں ہے تو ان کی طرف سے رفاہی کاموں میں خرچ کر دیں۔ جیسے کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔
الشیخ عبد العزیز بن باز الشیخ عبد الرزاق عفیفی الشیخ عبد الله بن غدیان الشیخ عبد الله بن قعود " ختم شد
واللہ اعلم