الحمد للہ.
اول:
سنت نبويہ تشريع ميں دوسرا مصدر ہے، جس طرح قرآن مجيد جبريل امين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر لاتے تھے اسى طرح سنت بھى لاتے تھے، اس كا مصداق اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے النجم ( 3 - 4 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور ان كى حديث اور حكم كو مكمل تسليم كرنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قسم اٹھا كر كہا ہے كہ جس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سنى اور پھر اسے قبول نہ كيا بلكہ رد كر ديا تو اس ميں ايمان كى رتى بھى نہيں ہے.
اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں النساء ( 65 ).
اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.
امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى
اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).
اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى
ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى
ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى
ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 604 ) اور ( 13206 ) اور ( 77243 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
ليكن جو شخص حديث نبوى كو اس اعتبار سے نہيں مانتا اور رد كرتا ہے كہ يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث نہيں ہو سكتى تو يہ پہلى قسم كى طرح نہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ " تنويرى " قسم كے نئے لوگ وہ ہيں جنہوں نے اپنى آراء اور توجھات كے ساتھ حديث پر حكم لگايا ہے، اور يہ بات كوئى نئى نہيں، بلكہ اپنے سے قبل بدعتيوں كا ہى ٹولہ ہے، جن كے متعلق اہل علم نے ان كے شبہات بيان كيے ہيں.
ان اور اس طرح كے لوگوں كو ہم كہينگے:
حديث رد كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہونے سے انكار كرنے سے قبل علمى منہج تقاضا كرتا ہے كہ اس پر غور كيا جائے ذيل ميں ہم اس كى شروط پيش كرتے ہيں:
پہلى شرط:
حديث ميں جو بيان ہوا ہے اور جو قرآن ميں وارد ہے اس ميں مكمل تناقض ہو اور يہ تناقض كسى واضح دلالت سے ثابت ہو جو منسوخ نہ ہو، يہاں ہم پھر " مكمل تناقض " كى قيد كى تاكيد كرتے ہيں، يہ تناقض صرف ظاہرى نہيں ہونا چاہے جو بادى النظر ميں جلدى سے ذہن ميں آئے.
اميد ہے جو لوگ انكار حديث كا سوچتے ہيں وہ بھى ہمارے ساتھ اس قيد ميں متفق ہونگے؛ كيونكہ اكثر لوگوں كے ذہن ميں آنے والے ظاہرى تعارض كى كوئى حقيقت نہيں، بلكہ يہ تو اعتراض كرنے والے كے ذہن ميں قائم ہوا ہے، اس كا جواب تامل اور غور كرنے اور لغت كى وجوہات تلاش كرنے اور اس كا اصول شريعت اور اس كے مقاصد كى موافقت كے ساتھ جواب ديا جا سكتا ہے.
جو كوئى بھى علامہ ابن قتيبہ الدينورى كى كتاب " مختلف الحديث " پر غور اور تامل كرے وہ اس بے تكى كى قدر معلوم كر سكتا ہے جو ان منكرين حديث نے بےتكى مارى ہيں كہ يہ قرآن كے موافق نہيں، يا پھر عقل اس كى تصديق نہيں كرتى.
پھر جب ابن قتبيہ اس كتاب ميں ان احاديث كى علماء كرام سے صحيح شرح بيان كرتے ہيں تو واضح ہوتا ہے كہ اس كى صحيح وجہ بھى ہے جو شريعت كے موافق ہے، اور قرآن كے تعارض والا تو صرف ايك فاسد قسم كا وہم ہى ہے.
ہم ان اور ان جيسے سنت كو رد كرنے كى جرات كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پر طعن كرنے والوں سے بغير كسى علمى منہج، يا مقبول تنقيدى اصول، اور بغير كسى علمى اصول كے فيصلے جس كى يہ بات اور بحث كرتے ہيں سے سوال كرتے ہيں:
كيا آپ يہ خيال كر سكتے ہيں كہ ناقد كو يقين ہو كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے نہيں اور يہ ممكن ہو كہ وہ مكمل طور پر قرآن كے ساتھ تعارض و تناقض ركھے، اس كے باوجود ہم ديكھيں كہ صحابہ كرام كے دور سے ليكر آج تك علماء اسلام اس حديث كو قبول اور اس كى شرح اور تفسير اور اس سے استدلال اور اس پر عمل كرنے پر متفق ہوں ؟!
كيا عقل سليم ـ جس كو يہ حاكم تسليم كرتے ہيں ـ يہى فيصلہ نہيں كرتى كہ اہل تخصص كے كسى امر پر فيصلے كا احترام كيا جائے جو اپنے فن اور تخصص ميں ماہر ہوں ؟!
كيا كوئى شخص مثلا كے طور فيزيا يا كيماء يا رياضى يا علوم تربيہ يا اقتصادى علوم كے ماہرين كو غلط كہنے كى جرات كرتا ہے جب وہ كسى ايك معاملہ پر سب متفق ہوں، خاص كر جب اس علم كے متخصصين ميں سے كوئى شخص بھى ان پر اعتراض كرنے والا نہ پايا جائے، بلكہ انتہائى طور پر يہى ہو گا كہ بعض نے اس كے متعلق كچھ كالم يا كوئى كتاب پڑھ لى جو علم كو بيان كرتى ہو يا پھر سب لوگوں كے علم كے ليے، كيا كوئى ايسى جرات كر سكتا ہے ؟!
دوسرى شرط:
اسناد ميں ضعف كا پايا جانا جو متن ميں وارد خطا كى متحمل ہو:
اور ہمارا خيال بھى ـ يہى ـ ہے كہ يہ شرط منہجى اور صحيح ہے، علمى نقد كے اصول كو تھوڑا سا بھى سمجھنے والے شخص كو اس كى مخالفت نہيں كرنى چاہيے، اور وہ يہ كہ متن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہونے سے انكار كرنا يہ معنى ركھتا ہے كہ سند ميں ضعف كا پايا جانا ہى ہميں يہ وہم دلاتا ہے كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے ہے، حالانكہ يہ ـ بالفعل ـ ايسا نہيں.
امام شافعى رحمہ اللہ كون امام شافعى جو كہ علم و ايمان ميں ايك اونچا مرتبہ ركھتے ہيں، جنہوں نے علم اصول فقہ ميں پہلى كتاب تصنيف كى ان كا كہنا ہے:
" جب حديث كو ثقات راوى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كريں تو يہ اس كا ثبوت ہے "
ديكھيں: كتاب الام كے ضمن ميں اختلاف الحديث ( 10 / 107 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" صدق اور كذب حديث كا استدلال مخبر يعنى خبر دينے والے كے صدق پر ہوتا ہے، مگر قليل سى خاص حديث ميں "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1099 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" مسلمان عدول ہيں: وہ اپنے آپ ميں عدول اور صحيح الامر ہيں.... اور ان كا اپنے متعلق خبر دينے اور ان كا نام صحيح سلامتى پر ہے، حتى كہ ہم ان كے فعل اس كا استدلال كريں جو اس كى مخالفت كرتا ہو، تو ہم اس خاص خيال كريں جس ميں ان كے فعل نے اس كى مخالفت كى ہے جو ان پر واجب ہوتا تھا "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1029 - 1030 ) اور كتاب الام ( 8 / 518 - 519 ).
امام شافعى رحمہ اللہ اس موضوع كے متعلق كچھ علمى اصول بيان جو كہ ان كي مختلف كتب ميں بہت زيادہ بيان ہے كے بعد ہمارے ليے اپنا فيصلہ ذكر كرتے ہيں جس ميں كچھ ہم نے يہاں نقل كيا وہ فردى اجتھاد يا ان كا شخصى مذہب نہيں، بلكہ وہ ايسا اصول ہے جس پر اس سے قبل اہل علم بھى متفق اور جمع ہيں امام شافعى كہتے ہيں:
" ميں نے اپنى اس كتاب كے شروع ميں جو لكھا ہے اس كا عام معنى كتاب و سنت كا علم ركھنے والے، اور مختلف لوگوں اور قياس اور معقول كا علم ركھنے والے متقدم علماء ميں سے كئى ايك كے سامنے بيان كيا تو ان ميں سے كسى ايك نے بھى كسى ايك كى مخالفت نہ كى، اور ان كا كہنا تھا:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام، اور تابعين عظام اور تبع تابعين كا مذہب يہى ہے، اور ہمارا مذہب بھى يہى ہے؛ اس ليے جو بھى اس مذہب كو چھوڑے گا ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ چھوڑ رہا ہے، اور وہ جاہل لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.
ان سب كا كہنا تھا: اس راہ كى مخالفت كرنے والے كو ہمارى رائے ميں سب اہل علم كے اجماع ميں جاہل قرار ديا گيا ہے الخ... "!!
ديكھيں: اختلاف الحديث ـ كتاب الام ـ ( 10 / 21 ) اور اسى طرح كى كلام آپ الرسالۃ فقرۃ ( 1236- 1239 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.
اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب حديث كو رد كرنے والے شخص پر سب سے پہلے يہ واجب اور ضرورى ہے كہ وہ يہ تلاش كرے اور بيان كرے كہ اس كو بيان كرنے والے راويوں ميں سے كون ہے جس نے نقل كرنے ميں غلطى كى ہے، اور اگر رد كرنے والے كو سند ميں كوئى ايسا سبب نہ ملے جو اس حديث كے انكار ميں مقبول سبب بن سكتا ہو تو يہ اس كے منہج كى غلطى كى علامت ہے، اور پھر يہ اس كى بھى علامت ہے كہ اسے حديث اور قرآن كى فہم اور مقاصد شرعيۃ كى فہم كا مراجعہ كرنے كى ضرورت ہے.
اور پھر جب كوئى حديث زمين پر موجود سب سے صحيح ترين سند كے ساتھ موجود ہو، بلكہ وہ حديث بہت سارے طرق سے مروى ہوں ـ جيسا كہ اكثر وہ احاديث جنہيں تنويرى رد كرتے ہيں ـ اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے مروى ہوں انہيں رد كرنا كيسا ہو گا؟!
تيسرى شرط:
سارے معاملہ كو احتمال اجتھاد كى طرف منسوب كرنا، اور يقين و حسم اور مخالف پر مسلمانوں كى عقلوں ميں طعن و تہمت زنى ترك كرنا، يہ اس وقت ہے جب اس ميں كوئى ايسى وجہ ہو جو اس احتمال كو ركھتى ہو، اور اس سلسلہ ميں كلام كرنے والا اہليت بھى ركھتا ہو ـ ضرورى بحث كے لوازمات ـ تا كہ وہ اس كا ادراك كر سكے اور اس ميں بحث كرے، كسى معين علت كى بنا پر كسى ايك عالم كو حديث ضعيف لگتى ہے، ليكن جس نے حديث قبول كى وہ اس پر تہمت كى زبان استعمال نہ كرے.
لہذا جو شخص ان تين شروط كى مخالفت كرتا اور حديث كا انكار اور اس كى تكذيب كرنے پر اصرار كرتا ہے تو وہ خطرناك راہ پر ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان كے ليے بغير كسى شروط و ضوابط كے منہج ميں تاويل كرنا جائز نہيں، وگرنہ وہ گناہ اور حرج ميں پڑيگا.
امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى
اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:
" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.
اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى
ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).
مزيد آپ سوال نمبر (245 ) اور ( 9067 ) اور ( 20153 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .