الحمد للہ.
یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ دعا ایک عبادت ہے، اور ہم تمام عبادات دلیل کے ساتھ ہی کرتے ہیں، چنانچہ [احادیث کی روشنی میں ]اصولی بات یہ ہے کہ دعا کے ساتھ ہاتھ اٹھائے جا سکتے ہیں، الا کہ اگر دعا کسی اور عبادت کے ضمن میں ہو تو اس وقت دعا کے الفاظ کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا اصل عبادت میں اضافہ تصور ہوگا، مثال کے طور پر نماز ، خطبہ، طواف، اور سعی وغیرہ کی عبادات ہیں۔
چنانچہ نماز میں دعائے استفتاح، رکوع کی دعا، رکوع سے اٹھنے کے بعد کی دعا، دو سجدوں میں دعا، دو سجدوں کے درمیان دعا ہے، لیکن ان جگہوں میں اگر کوئی شخص ہاتھ اٹھا کر دعا کرے تو اسے بدعت تصور کیا جائے گا، بالکل اسی طرح کسی بھی خطبہ کے دوران دعا کرتے ہوئے اسوائے ایک جگہ کے علاوہ کسی جگہ بھی ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، جہاں ہاتھ اٹھائے جا سکتے ہیں وہ ہے دورانِ خطبہ بارش کی دعا کرتے ہوئے، یہی حال طواف اور سعی کے دوران کی جانیوالی دعاؤں کا ہے۔
- تاہم جن دعاؤں کے بارے میں ہاتھ اٹھانے کی دلیل مل جائے تو بلا شک و شبہ وہاں پر ہاتھ اٹھانا جائز ہوگا۔
- اسی طرح ایسی دعا جس کے بارے میں ہاتھ اٹھانے کی دلیل نہیں ہے، اور نہ ہی وہ دعا کسی دوسری عبادت کے ضمن میں ہے، تو ایسی دعا کو دعائے مطلق کہا جاتا ہے، ایسی دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لینے پر کوئی حرج نہیں ہے؛ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہے کہ : جس میں ایک شخص کا تذکرہ کیا گیا جو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے: "یا رب! یا رب!" حالانکہ اسکا کھانا حرام کا ، پینا حرام کا ، لباس حرام کا، اور اسکی پرورش حرام پر ہوئی تو اس کی دعا کیسے قبول ہو؟
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : (جب بندہ اپنے ہاتھوں کو اللہ کی طرف اٹھائے تو اللہ تعالی اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دینے سے حیا فرماتا ہے) اس بارے میں دیگر احادیث بھی ہیں۔
اور اگر نفل نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی کوئی ضرورت ہو تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: انسان کو کوئی ضرورت لاحق ہو تو اللہ تعالی سے اپنی ضرورت مانگنے کیلئے دعا مانگے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا عادی ہو تو اس بارے میں کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم.