الحمد للہ.
جب كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور يہ پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى ابھى عدت ميں ہى ہو اس كى عدت ختم نہ ہوئى ہو ( يعنى حاملہ ہو تو وضع حمل نہ ہوا ہو، يا پھر اس كے تين حيض پورے نہ ہوئے ہوں ) تو خاوند كے ليے اپنى بيوى سے رجوع كرنا جائز ہے.
اور وہ رجوع كے ليے " ميں نے تجھ سے رجوع كيا " يا پھر ميں نے تجھے ركھ ليا " كہے تو يہ رجوع صحيح ہوگا، اسے اس پر دو گواہ بھى بنانا ہونگے، يا پھر رجوع كى نيت سے بيوى سے تعلقات قائم كرے يعنى جماع كر لے تو بھى اس سے رجوع ہو جائيگا.
رجوع ميں دو گواہ بنانا سنت ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
جب وہ عورتيں اپنى عدت پورى كرنے كے قريب پہنچ جائيں ت وانہيں يا تو قاعدہ كے مطابق اپنے نكاح ميں رہنے دو يا پھر دستور كے مطابق انہيں اپنے سے الگ كر دو اور آپس ميں دو عادل شخصوں كو گواہ بنا لو الطلاق ( 2 ).
اس طرح رجوع ہو جائيگا.
ليكن اگر پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى كى عدت ختم ہو جائے تو پھر نيا عقد نكاح كرنا ضرورى ہے، تو وہ اس ميں باقى مردوں كى طرح بيوى كے ولى كو نكاح كا پيغام دے كر اس سے رشتہ طلب كريگا، اور جب ولى اور عورت رضامند ہو تو پھر نئے مہر كے ساتھ گواہوں كى موجودگى ميں رضامندى كے ساتھ عقد نكاح ہوگا.
ليكن جب اسے آخرى ( يعنى تيسرى ) طلاق ہو جائے تو وہ عورت اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے، حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے شرعى نكاح رغبت كرے يعنى وہ اس سے نكاح كر كے اس سے وطئ كرے اور پھر اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے البقرۃ ( 230 ).
يہ حلال نہيں كہ كوئى شخص كسى آدمى كے ساتھ اتفاق كر لے كہ وہ اس سے نكاح كرے اور بعد ميں اسے چھوڑ دے بلكہ يہ نكاح حلالہ كہلاتا ہے اور كبيرہ گناہ ہے، اس نكاح سے وہ عورت اپنے سابقہ خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى، بلكہ حلالہ كرانے اور حلالہ كرنے والے پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے.