الحمد للہ.
اگر كسى شخص نے رمضان المبارك ميں كسى عذر يعنى سفر يا بيمارى يا حيض اور نفاس كى وجہ سے روزے چھوڑے تو وہ ايام كى قضاء ميں روزے ركھےگا كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تو جو كوئى بھى تم ميں سے بيمار ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 184 ).
اور صحيح ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ جب ان سے حائضہ عورت كے متعلق دريافت كيا گيا كہ وہ روزوں كى قضاء تو كرتى ہے ليكن نماز كى قضاء كيوں نہيں كرتى ؟ تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:
" ہميں بھى يہ آتا تو ہميں روزوں كى قضاء كا حكم ديا جاتا تھا، ليكن ہميں نماز كى قضاء كا حكم نہيں ديا جاتا تھا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 335 ).
جب آپ كى بيوى كو ايان كى تعداد كا علم نہيں مثلا اسے شك ہے كہ چھ يوم تھے يا سات تو اس كو چھ يوم كے روزے ركھنا ہونگے، كيونكہ اصل ميں برى الذمہ ہونا ہے، ليكن اگر وہ بطور احتياط سات روزے ركھتى ہے تو يہ بہتر ہے؛ تا كہ يقينى طور پر برى الذمہ ہو جائے.
اور اگر اسے بالكل ہى تعداد كا علم نہيں تو پھر ظن غالب ميں جو ہو اتنے ايام كے روزے ركھ لے تا كہ برى الذمہ ہو سكے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك عورت كے ذمہ رمضان كے روزں كى قضاء ہے ليكن اسے شك ہے كہ چار يوم ہيں يا تين، اب اس نے تين روزے ركھ ليے اس پر كيا لازم آتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب انسان كو شك ہو كہ اس پر كتنے روزوں كى قضاء واجب ہے تو وہ كم كو لے، اور اگر عورت يا مرد كو شك ہو جائے كہ اس كے ذمہ تين يا چار دن كى قضاء ہے تو وہ كم عدد كو لے كيونكہ يہ يقينى ہے، اور اس سے جو زائد ہے وہ مشكوك ہوگا، اور اصل تو برى الذمہ ہونا ہے.
ليكن اس كے ساتھ احتياط يہ ہے كہ وہ شك والا بھى روزہ ركھ لے يعنى تين يا چار ہو تو چار روزے ركھے كيونكہ اگر وہ اس پر واجب ہوا تو وہ يقينا برى الذمہ ہوگا، اور اگر واجب نہيں تو پھر يہ نفلى ہو جائيگا، اور پھر اللہ تعالى بہتر عمل كرنے والے كے اجروثواب كو ضائع نہيں كرتا " انتہى
ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.
واللہ اعلم .