سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كسى معين يوم اور معين مقدار ميں صدقہ دينے كا التزام كرنا

120096

تاریخ اشاعت : 24-04-2009

مشاہدات : 7431

سوال

كسى معين يوم اور معين مقدار ميں صدقہ دينے كا التزام كرنا

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كا كسى معين وقت يا جگہ ميں كوئى عبادت مخصوص كر لينا جو شريعت ميں وارد نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں يہ بدعت شمار نہيں ہو گى، ليكن اس كے ليے كچھ شروط ہيں:

اس ميں يہ اعتقاد نہ ركھا جائے كہ وہ وقت اورجگہ كو كوئى معين فضيلت حاصل ہے، بلكہ وہ كسى حالت كى بنا پر ہو جو اسے پيش آ جائے جو اس تخصيص كا محتاج ہو.

اور پھر وہ جگہ شركيہ اور وہاں ميلہ وغيرہ نہ لگتا ہو اور نہ ہى وہاں قبر ہو.

احداث فى الدين يہ ہے كہ وہ عمل كرنے والا شخص احداث و اختراع سے اسے دين و شريعت ميں اضافہ كا قصد كرے، يا پھر وہ اس كى جانب ذريعہ كا باعث بنتا ہو، تو اس صورت ميں مسلمان بدعت ميں واقع ہو گا.

ڈاكٹر محمد حسين جيزانى حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" شرعى بدعت كے تين قسم كى قيود ہيں جس سے وہ مختص ہے، اور كوئى بھى چيز اس وقت تك بدعت نہيں ہو گى جب تك اس ميں يہ تين نہ پائى جائيں وہ يہ ہيں:

اول:

احداث يعنى نئى چيز ايجاد كرنا.

دوم:

اس نئى ايجاد كردہ كو دين ميں شامل اور اضافہ كر ليا جائے.

سوم:

يہ نئى چيز خاص يا عام طريق پر شرعى دليل سے مستنبط نہ ہو....

يہ معنى تين اصولوں ميں سے ايك كے ساتھ حاصل ہوتا ہے.

پہلا اصول:

ايسى چيز سے اللہ كا قرب حاصل كرنا جو مشروع نہيں.

دوسرا اصول:

نظام دين سے خارج ہونا.

تيسرا:

اس كے ساتھ تيسرا اصول يہ ملحق كيا جا سكتا ہے كہ وہ ذرائع جو اس بدعت تك جانے كا ذريعہ اور وسيلہ ہوں " انتہى مختصرا.

ديكھيں: قواعد معرفۃ البدع صفحہ ( 18 - 23 ).

رہا مسئلہ كہ كسى معين وقت اور جگہ عبادت كى عادت بنا لينا تا كہ اس ميں عبادت كرنا آسان ہو، اور يہ اعتقاد نہ ركھا جائے كہ يہ لازم اور ضرورى ہے، اور نہ ہى اس ميں كوئى فضيلت ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اس كى مثال يہ ہے كہ: كوئى شخص منگل كے دن روزہ ركھنے كى عادت بنا لے، كيونكہ اسے اس روز چھٹى ہوتى ہے اور روزہ ركھنا آسان ہو گا.

اور اسى طرح وہ شخص جو ہفتہ كى رات قيام كرنے كى عادت بنا لے كيونكہ اسے ہفتہ كے دن كام سے چھٹى ہوتى ہے.

اور اسى طرح كوئى شخص فارغ ہونے كى بنا پر مغرب اور عشاء كے درميان قرآن مجيد تلاوت كرنےكى عادت بنا لے، اور اسى طرح كى دوسرى مثاليں بھى ہو سكتى ہيں، يہ سب جائز ہيں؛ كيونكہ دين ميں نئى چيز ايجاد كرنے كا شبہ نہيں پايا جاتا اور اسى طرح اس ميں كوئى ايسا ذريعہ بھى نہيں جو بدعت اور نئى چيز ايجاد كرنے كا وسيلہ بن سكے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بعض امام ہر ركعت اور ہر رات ايك معين مقدار ميں قرآن مجيد پڑھنے كا اہتمام كرتے ہيں، اس ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

ميرے علم كے مطابق تو اس ميں كچھ نہيں؛ كيونكہ يہ معاملہ امام كے اجتھاد پر ہے، اس ليے اگر امام ديكھے كہ مصلحت اسى ميں ہے كہ وہ كچھ راتيں يا كچھ ركعات ميں زيادہ قرآت كر لے كيونكہ وہ اس وقت ہشاش بشاش اور نشيط ہے اور اپنے آپ ميں اس كى قوت ديكھتا ہے، اور اسے قرآت كرنے ميں لذت اور سرور آ رہا ہے تو وہ كچھ آيات زيادہ تلاوت كر لے تا كہ اسے خود بھى فائدہ ہو اور اس كے پيچھے والے بھى فائدہ حاصل كريں، كيونكہ جب وہ اچھى آواز ميں قرآت كريگا اور قرآت ميں اس كا دل لگے اور اس ميں خشوع اختيار كرے گا تو وہ اور اس كے پيچھے نماز ادا كرنے والے سب فائدہ اٹھائينگے، لہذا جب وہ كچھ ركعات ميں بعض آيات زيادہ تلاوت كر لے يا بعض راتوں ميں تو ہم اس ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے، الحمد للہ اس معاملہ ميں وسعت ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى شيخ ابن باز ( 11 / 335 ).

اس بنا پر ہم آپ كے ليے كسى معين يوم ميں معين مقدار كے ساتھ صدقہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے، تا كہ باقى ايام كے علاوہ اس ميں آسانى ہو، نا كہ اس دن كى كوئى معين فضيلت كا مقصد ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب