الحمد للہ.
الحمدللہاولاد ایک ایسا لفظ اوراسم ہے جس میں بیٹے اوربیٹیاں سب شامل ہیں ، اوروالد کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے اس کے دلائل موجودہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
( تواورتیرا مال تیرے والد کا ہے ) ۔
اس لیے اگر والد اپنی اولاد کے مال میں سے کچھ لینا چاہے تویہ اس کا حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے اولاد پر کوئ ضرر نہ آۓ ، اور والد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایک بیٹے کا مال لے کر دوسرے کو دے دے ۔
اگر والدین فقیر اورمحتاج ہوجائيں اوربیٹی کے پاس اپنی ضرورت سے زائد مال ہوتوبیٹی پرلازم ہے کہ وہ اپنے والدین پرخرچ کرے لیکن اپنی ضروریات میں کمی نہ کرے ۔
اورخاوند کے ذمہ بیوی کے خرچہ کے بارہ میں گزارش ہے کہ : خاوند کے ذمہ واجب ہے کہ وہ بیوی کا وجب شدہ نان ونفقہ پورا کرے ، اوراگر بیوی کہیں ملازم ہے تووہ بیوی کا مال ہے اوراس کے ساتھ ہی خاص ہے ۔
لیکن اگر خاوند یہ شرط رکھے کہ بیوی کی ملازمت اورگھر سے باہر جانے اوراس کے حق میں سے کچھ فوت ہونے کی صورت میں وہ تنخواہ کا کچھ حصہ وصول کرے گا ۔
بیوی کوجب مال ملے تواسے اس کی حفاظت کرنی چاہيۓ تا کہ وہ اپنی یا پھر اپنی اولاد اوریا اپنے والدین کی ضروریات پوری کرسکے ۔
اوراگر اس لڑکی کے اوربھی بہن بھائي ہیں اوران میں سے کوئ ایک اپنے والدین کا خرچہ برداشت کررہا ہے تواس طرح باقیوں سے وہ واجب ساقط ہوجاۓ گا ، اورجوخرچہ برداشت کررہا ہے اسے اجر وثواب حاصل ہوگا ۔
یاپھر ایک صورت یہ ہے کہ سب بہن بھائي آپس میں والدین کا خرچہ تقسیم کرلیں کہ ہر ایک کواتنی رقم ادا کرنی ہوگی ۔
اوررہا داماد کا مسئلہ تواس پر کوئ ضروری نہيں کہ وہ اپنی بیوی کے والدین ( یعنی اپنے سسرال والوں ) پر خرچہ کرتا پھرے ، لیکن اگروہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرنا چاہے تووہ انہيں دے سکتا ہے ۔
لیکن بیٹی اپنے والدین کوزکاۃ کا مال نہیں دے سکتی اس لیے کہ بیٹی پر والدین کوکھلانا پلانا واجب ہے لھذا وہ زکاۃ کے مال کے علاوہ اپنے مال سے ان کا خرچہ برداشت کرے ۔
واللہ اعلم .