جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

کیا شادی شدہ بیٹی کے مال میں والدین کا حق ہے

12214

تاریخ اشاعت : 01-03-2004

مشاہدات : 14570

سوال

کیا لڑکے کی طرح لڑکی کامال بھی والدین کی طرف لوٹتا ہے ؟
اورکیا لڑکی کے ذمہ بھی اسی طریقہ سے والدین پر خرچ کرنا واجب ہے ؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکی کی شادی کے بعد اگراس کے بھائ والدین پر خرچ کرنے کی طاقت واستطاعت رکھتے ہیں تولڑکی کےذمہ والدین کا خرچہ واجب نہیں ؟
اورکیا بیوی کےمال میں خاوند کا کوئ حق ہے اس لیے لیے نہیں کہ وہ خاوند اپنے اوپروہ مال خرچ کرے بلکہ اس لیے کہ بیوی خود جہاں چاہے خرچ کرے ؟
اوراگرخاوند کا خیال اورنظریہ ہوکہ بیوی کا مال والدین پر خرچ کرنا واجب نہیں توکیا بیوی اس مسئلہ میں خاوند کی اطاعت کرے ؟
اوراگروالدین فقیرو محتاج ہوں اوربیوی کا کوئ خاص مال نہیں توکیا اس کے خاوندکے ذمہ ہے کہ وہ بیوی کے والدین پر خرچ کرے ؟
وہ اسطرح کہ والدین کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹی سے زکاۃ کامال لے لیں ، لیکن خاوند کے والدین کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے سے زکاۃ کامال لیں ، اس لیے کہ بیٹے پر والدین کا خرچہ واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اولاد ایک ایسا لفظ اوراسم ہے جس میں بیٹے اوربیٹیاں سب شامل ہیں ، اوروالد کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے اس کے دلائل موجودہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

( تواورتیرا مال تیرے والد کا ہے ) ۔

اس لیے اگر والد اپنی اولاد کے مال میں سے کچھ لینا چاہے تویہ اس کا حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے اولاد پر کوئ ضرر نہ آۓ ، اور والد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایک بیٹے کا مال لے کر دوسرے کو دے دے ۔

اگر والدین فقیر اورمحتاج ہوجائيں اوربیٹی کے پاس اپنی ضرورت سے زائد مال ہوتوبیٹی پرلازم ہے کہ وہ اپنے والدین پرخرچ کرے لیکن اپنی ضروریات میں کمی نہ کرے ۔

اورخاوند کے ذمہ بیوی کے خرچہ کے بارہ میں گزارش ہے کہ : خاوند کے ذمہ واجب ہے کہ وہ بیوی کا وجب شدہ نان ونفقہ پورا کرے ، اوراگر بیوی کہیں ملازم ہے تووہ بیوی کا مال ہے اوراس کے ساتھ ہی خاص ہے ۔

لیکن اگر خاوند یہ شرط رکھے کہ بیوی کی ملازمت اورگھر سے باہر جانے اوراس کے حق میں سے کچھ فوت ہونے کی صورت میں وہ تنخواہ کا کچھ حصہ وصول کرے گا ۔

بیوی کوجب مال ملے تواسے اس کی حفاظت کرنی چاہيۓ تا کہ وہ اپنی یا پھر اپنی اولاد اوریا اپنے والدین کی ضروریات پوری کرسکے ۔

اوراگر اس لڑکی کے اوربھی بہن بھائي ہیں اوران میں سے کوئ ایک اپنے والدین کا خرچہ برداشت کررہا ہے تواس طرح باقیوں سے وہ واجب ساقط ہوجاۓ گا ، اورجوخرچہ برداشت کررہا ہے اسے اجر وثواب حاصل ہوگا ۔

یاپھر ایک صورت یہ ہے کہ سب بہن بھائي آپس میں والدین کا خرچہ تقسیم کرلیں کہ ہر ایک کواتنی رقم ادا کرنی ہوگی ۔

اوررہا داماد کا مسئلہ تواس پر کوئ ضروری نہيں کہ وہ اپنی بیوی کے والدین ( یعنی اپنے سسرال والوں ) پر خرچہ کرتا پھرے ، لیکن اگروہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرنا چاہے تووہ انہيں دے سکتا ہے ۔

لیکن بیٹی اپنے والدین کوزکاۃ کا مال نہیں دے سکتی اس لیے کہ بیٹی پر والدین کوکھلانا پلانا واجب ہے لھذا وہ زکاۃ کے مال کے علاوہ اپنے مال سے ان کا خرچہ برداشت کرے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ عبداللہ بن جبرین