سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

طلاق رجعى والى عورت ضرورت كے بغير عدت ميكے ميں نہ گزارے

122703

تاریخ اشاعت : 29-07-2013

مشاہدات : 4718

سوال

ميں نے تكليف و اذيت كى بنا پر عدالت كے ذريعہ طلاق كا مطالبہ كيا، كيونكہ خاوند مجھے زدكوب كرتا اور ميرے ساتھ اہانت آميز سلوك كرتا تھا، اور حقوق كى ادائيگى ميں بھى كوتاہى كا مرتكب تھا، كئى ماہ تك ميں ميكے رہى نہ تو ميرا خاوند ميرے والدين سے سمجھوتہ كرنے آيا، اور نہ ہى كسى دوسرے كو صلح كے ليے بھيجا.
ميں نے اپنے والدين كے ساتھ سمجھوتہ كيے بغير خاوند كے ساتھ جانے سے انكار كر ديا، كہ پہلے وہ ميرے والدين كے ساتھ وعدہ كرے كہ مجھے زدكوب نہيں كريگا، ليكن خاوند نے اس سے انكار كر ديا اور ميرے والدين سے بھى سمجھوتہ نہيں كيا، تو عدالت ميں ميرے حق ميں طلاق كا فيصلہ جارى كر ديا، اور مجھ سے ميرے مالى حقوق كے متعلق دريافت كيا كہ آيا ميں اس سے دستبردار تو نہيں ہونا چاہتى، ميں نے دستبردار ہونے سے انكار كر ديا اور ايك طلاق ہو گئى، خاوند نے مجھے باقى مانندہ مہر اور عدت كے اخراجات ادا كر ديے.
ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا اسے طلاق مانا جائيگا كہ يہ خلع شمار ہوگا ؟ كيونكہ طلاق كا كا مطالبہ تو ميں نے خود كيا تھا اور عدت كتنى ہوگى ؟
اور كيا دوران عدت مجھے خاوند كے گھر ميں ہى رہنا لازم ہو گا ؟ ليكن ميں اس كے گھر نہيں رہنا چاہتى اور نہ ہى ميرے گھر والے چاہتے ہيں كيونكہ اس نے ميرى اور ميرے گھر والوں كى توہين كى ہے، اور اگر ميں دوبارہ اس كے گھر جاتى ہوں تو خدشہ ہے كہ وہ مجھے زدكوب كريگا، كيا ميں جو كچھ كر رہى اور دوران عدت ميكے ميں ہوں كہيں حرام تو نہيں ؟
برائے مہربانى آپ اس كے متعلق تفصيلى معلومات فراہ كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كو جو ضرر اور اذيت ہوئى اس كى بنا پر اگر عدالت نے آپ كے حق ميں طلاق كا فيصلہ كيا ہے تو آپ كو ايك رجعى طلاق ہو چكى ہے، اور اسے طلاق شمار كيا جائيگا خلع نہيں، چاہے آپ نے ہى طلاق كا مطالبہ كيا ہے يہ طلاق ہونے كے حكم پر كوئى اثرانداز نہيں ہو سكتا.

دوم:

اصل يہى ہے كہ مطلقہ عورت اپنے خاوند كے گھر ميں ہى طلاق گزارےگى جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے ليے طلاق دو اور عدت كو شمار كرو، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو جو تمہارا پروردگار ہے، انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں مگر يہ كہ وہ واضح طور پر كوئى فحاشى كا كام كريں الطلاق ( 1 ).

ليكن اگر مطلقہ عورت كو خاوند كے گھر ميں عدت گزارنے ميں يقينى اذيت و تكليف اور ضرر كا خدشہ ہو تو اس كے اپنے ميكے جا كر عدت گزارنا جائز ہوگا.

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تم انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو .

يعنى خاوند كو دورات عدت اپنى بيوى كو گھر سے نكالنے كا حق حاصل نہيں، اور نہ ہى بيوى كے ليے گھر سے نكلنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ خاوند كا حق ہے، ليكن اگر كوئى واضح ضرورت ہو تو وہاں سے نكل سكتى ہے.

اور اگر وہ وہ خود ہى نكل جائے تو گنہگار ہوگى اور عدت منقطع نہيں ہوگى، اس ميں طلاق رجعى اور طلاق بائن والى عورت برابر ہے؛ اس كا مقصد مرد كے نطفہ كا خيال اور ديكھ بھال ہے، اور اس آيت ميں بيوتہن ميں جو عورتوں كى طرف اضافت كى گئى ہے اس ك معنى بھى يہى ہے.

جس طرح كہ اللہ تعالى كا درج ذيل فرمان بھى ہے:

اورتمہارے گھروں ميں اللہ كى جن آيا اور دانائى كى باتوں كى تلاوت كى جاتى ہے انہيں ياد كرو الاحزاب ( 34 ).

اور اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اپنے گھروں ميں ٹكى رہو الاحزاب ( 33 ).

يہاں اسكان يعنى رہائش اختيار كرنے كى اضافت ہے نہ كہ اضافت تمليك يعنى مالك بننے كى اضافت نہيں.

اور اللہ تعالى كا فرمان:

تم انہيں مت نكالو .

يہ الفاظ اس كے متقاضى ہيں كہ يہ چيز خاوند كے حق ميں ہو يعنى خاوند انہيں وہاں سے مت نكاليں.

اور اللہ كا فرمان:

اور نہ ہى وہ نكليں .

يہ بيويوں كے حق ميں ہے كہ بيوياں خود بھى وہاں سے نہ نكليں " انتہى

فتاوى اللجنۃ الدائمۃ ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى كے متعلق درج ہے:

اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے ليے طلاق دو اور عدت كو شمار كرو، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو جو تمہارا پروردگار ہے، انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں مگر يہ كہ وہ واضح طور پر كوئى فحاشى كا كام كريں الطلاق ( 1 ).

اگر عورت كسى كے نكالے بغير خود ہى خاوند كى اجازت كے بغير نكل جائے تو اس كے متعلق حكم كيا ہے ؟ خلع نہيں بلكہ طلاق ہو چكى ہے اور عدت باقى ہے ؟

جواب:

اگر طلاق رجعى والى عورت خاوند كے نكالے بغير خود ہى خاوند كے گھر سے نكلتى ہے تو وہ گنہگار ہوگى؛ ليكن اگر اسے نكلنے كى ضرورت اور كوئى سبب پيش آئے تو وہ نكل سكتى ہے " انتہى

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" طلاق رجعى والى عورت پر دوران عدت خاوند كے گھر ميں ہى رہنا واجب ہے، اور اس كے خاوند پر بھى اسے طلاق رجعى كى عدت كے دوران گھر سے نكالنا حرام ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے ليے طلاق دو اور عدت كو شمار كرو، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو جو تمہارا پروردگار ہے، انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں مگر يہ كہ وہ واضح طور پر كوئى فحاشى كا كام كريں اور يہ اللہ كى حدود ہيں، اور جو كوئى اللہ كى حدود سے تجاوز كرتا ہے تو اس نے اپنے آپ پر ظلم كيا الطلاق ( 1 ).

آج كل جو رواج بن چكا ہے كہ جيسے ہى عورت كو طلاق رجعى ہو جاتى ہے تو وہ فورا اپنے ميكے چلى جاتى ہے، يہ بہت بڑى غلطى اور حرام عمل ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا ہے كہ:

" تم انہيں مت نكالو " اور يہ بھى فرمايا كہ" وہ خود بھى نہ نكليں "

اس سے صرف استثناء اسى صورت ميں ہے كہ اگر وہ عورت كوئى واضح فحش كام كا ارتكاب كرتى ہو.

اس كے بعد اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا كہ:

يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں؛ اور جو كوئى اللہ تعالى ك حدود سے تجاوز كرتا ہے اس نے اپنے آپ پر ظلم كيا .

پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے بعد عورت كے اپنے گھر ميں ہى طلاق رجعى كى عدت گزارنے كى حكمت بيان كرتے ہوئے فرمايا:

آپ نہيں جانتے كہ ہو سكتا ہے شائد اس كے بعد اللہ تعالى كوئى نئى بات پيدا كر دے .

چنانچہ مسلمانوں پر اللہ تعالى كى حدود كى خيال كرنا واجب ہے؛ كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں جو حكم ديا ہے اس پر عمل كريں، اور اپنے رسم و رواج اور عادات كو شرعى امور اور احكام كى مخالفت كا ذريعہ مت بنائيں.

اہم يہ ہے كہ ہم پر اس مسئلہ كا خيال ركھنا واجب ہے اور رجعى طلاق والى عورت پر خاوند كے گھر ميں ہى عدت پورى كرنا واجب ہے، اس عدت كے دوران عورت كے ليے اپنے خاوند كے سامنے چہرہ ننگا كرنا اور بناؤ و سنگھار كر كے سامنے آنا اور خوشبو لگانا اور اس سے بات چيت كرنا اور خلوت ميں بيٹھ كر ہنسى مذاق كرنا جائز ہے؛ ليكن وہ ہم بسترى اور مباشرت نہيں كريگى، كيونكہ يہ تو رجوع كے وقت ہوتا ہے.

خاوند كو حق ہے كہ وہ اپنى طلاق رجعى والى بيوى سے زبانى يا مجامعت و مباشرت كے ساتھ رجوع كرے، ميں نے بيوى سے رجوع كيا كہے تو رجوع ہو جائيگا، اور اگر رجوع كى نيت سے مجامعت و مباشرت كرتا ہے تو بھى رجوع ہو جائيگا " انتہى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ.

ہم اوپر كى سطور ميں بيان كر چكے ہيں كہ طلاق رجعى والى عورت كا دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے ميكے منتقل ہونا اگرچہ اصل ميں ممنوع ہے؛ ليكن ضرورت و حاجت كى بنا پر يا پھر كسى عذر كى بنا پر منتقل ہونا مباح ہے.

ابو وليد باجى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور قاضى ابو محمد كا قول ہے: اگر خاوند اور بيوى كے مابين اگر اس طرح كى بددماغى اور لڑائى جھگڑا زيادہ ہو جائے اور اذيت و تكليف بڑھ جائے اور خاوند اپنى اصلاح كى كوشش نہ كرتا ہو اور اميد بھى نہ ہو تو پھر عورت كسى دوسرى رہائش ميں منتقل ہو جائے "

پھر اس كے بعد خاوند كے گھر سے بيوى كے منتقل ہونے كے كچھ اسباب كے متعلق جو كہا گيا ہے وہ بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:

" يہ سب اقول اس پر دلالت كرتے ہيں كہ عذر كے بغير عورت كا خاوند كے گھر سے منتقل ہونا مباح نہيں ہے، اگرچہ عذر كى تعيين ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے " واللہ تعالى اعلم " انتہى

ماخوذ از: المنتقى شرح الموطا.

اس بنا پر اگر آپ اپنے خاوند كى مار اور اذيت و تكليف كا خدشہ ركھتى ہيں كہ اگر دوران عدت خاوند كے گھر گئيں تو وہ آپ كو زدكوب كريگا اور تكليف پہچائيگا تو آپ كے ليے اپنے ميكے ميں ہى عدت گزارنا جائز ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب