سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اویس قرنی رحمہ اللہ کے مختصر حالات زندگی

125276

تاریخ اشاعت : 28-07-2015

مشاہدات : 52899

سوال

سوال: میں متعدد بار سن بھی چکا ہوں، اور بہت سی ایمیل بھی مجھے ایک تابعی کے بارے میں موصول ہوئی ہیں، بساا وقات انہیں صحابی بھی کہا جاتا ہے، جن کا نام ہے: "اویس قرنی"ہے انکی اپنی والدہ کیساتھ نیکی کے بارے میں بھی بہت کچھ سننے کو ملتا ہے۔
کیا ممکن ہے کہ آپ ان کا مکمل قصہ اور سیرت ہمیں بیان کریں؟ اور کیا واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر کیا ہے کہ ان کا خاص مقام و مرتبہ ہے؟ اور اگر یہ بات درست ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کیساتھ حسن سلوک کیاتھا، اور اسی وجہ سے انہیں فضیلت بھی ملی ، تو وہ اپنی والدہ کیساتھ کیسا حسن سلوک کرتے تھے؟ اللہ تعالی آپکو جزائے خیر دے، اور اپنا قرب نصیب فرمائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اویس قرنی:  آپکی کنیت ابو عمرو، اور مکمل نام و نسب  یہ ہے:  اویس بن عامر بن جزء بن مالک قرنی، مرادی، یمنی۔
آپ کا شمار کبار تابعین  اور نیک اولیاء میں ہوتا ہے، آپ نے عہد نبوی  پایا ہے، لیکن ان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں ہوسکی،  اور حافظ ابو نعیم  رحمہ اللہ  نے " حلية الأولياء " (2/87) میں  اصبغ بن زید سے  نقل کیا ہے کہ : اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ کا خیال  رکھنے کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے تھے،  لہذا اویس قرنی رحمہ اللہ تابعی ہیں، صحابی نہیں ہیں۔

آپکی پیدائش و پرورش یمن ہی میں ہوئی ہے۔

آپ کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ  " سير أعلام النبلاء " (4/19) میں کہتے ہیں:
"آپ متقی و زاہداور بہترین قدوہ تھے، اپنے وقت میں تابعین  کے سربراہ تھے، آپکا شمار  متقی اولیاء اللہ اور اللہ کے مخلص بندوں میں ہوتا تھا"

دوم:

امام نووی رحمہ اللہ نے  شرح صحیح مسلم  میں  آپکے فضائل میں ایک باب قائم کیا ہے، اور اس کے تحت امام مسلم کی روایت کردہ  احادیث  میں سے ایک حدیث: (2542) بھی ذکر کی:
"اسیر بن جابر کہتے ہیں: " جب بھی یمن  کے حلیف قبائل  عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو عمران سے دریافت کرتے: "کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟" ایک دن اویس بن عامر کو پا ہی لیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تم اویس بن عامر  ہو؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوں؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر جگہ باقی ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہاری والدہ ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی  سنائی: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: (تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا) لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے  عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: "آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟"
انہوں نے کہا: "میں کوفہ جانا چاہتا ہوں"
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دو؟ [آپ اسی کی مہمان نوازی میں رہو گے]"
تو انہوں نے کہا: "میں گم نام  رہوں  تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا"
راوی کہتے ہیں: جب آئندہ سال  حج کے موقع پر  انکے قبیلے کا سربراہ ملا ، اور اس کی ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی کے بارے میں استفسار کیا، تو اس نے جواب دیا کہ:  "میں اسے کسمپرسی اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں"
تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی حدیث نبوی  سنائی: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: (تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا)
یہ آدمی بھی واپس جب اویس قرنی کے پاس آیا تو کہا: "میرے لیے دعائے استغفار کر دو"
اویس قرنی نے کہا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو"
اس نے پھر کہا: "میرے لیے  استغفار کرو"
اویس قرنی نے پھر وہی جواب دیا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو"
اور مزید یہ بھی کہا کہ: "کہیں تمہاری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے تو نہیں ہوئی؟"
آدمی نے کہا: "ہاں میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے"
تو  اویس قرنی نے  ان کیلئے استغفار کر دیا، اور پھر لوگوں کو اویس قرنی کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی  اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔

اس قصے کے راوی اسیر کہتے ہیں:  "میں نے انہیں ایک [خوبصورت]لباس دیا، تو جب بھی کوئی شخص انکا لباس دیکھتا تو کہتا: "اویس کے پاس یہ لباس کہاں سے آگیا!"

اسی طرح امام حاکم نے بھی " المستدرك " (3/455) میں  اویس قرنی کے فضائل  میں ایک عنوان قائم کیا ہے، اور ان کے بارے میں لکھاہے:
"اویس اس امت کا راہب ہے" انتہی

عین ممکن ہے کہ اویس قرنی رحمہ اللہ کے فضائل  کے متعلق سب سے عظیم حدیث وہ ہو جس میں امت محمدیہ  میں سے ایک شخص کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے شفاعت کرنے کا   ذکر ہے، اور اس بات کا تذکرہ متعدد روایات میں ہے، ان میں سے صحیح ترین روایت  عبد اللہ بن ابی جدعاء کی مرفوع روایت ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (میری امت کے لوگوں میں سے ایک شخص ایسا بھی ہوگا  جس کی شفاعت کے ذریعے بنی تمیم سے بھی زیادہ  لوگ جنت میں داخل ہونگے) ترمذی: (2438) نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث "حسن صحیح" ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اور اس شفاعت کرنے والے اس شخص کے بارے میں حسن بصری رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے کہ حدیث میں شافع سے مراد اویس قرنی ہی ہے، اس بات کا ذکر دیگر مرفوع احادیث میں بھی ہوا ہے، لیکن وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں۔

اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں مزید ضعیف روایات  ذکر ہوئی ہیں، جن میں ایک لمبی حدیث ہے، جس میں ہے کہ: (تمہارے پاس صبح کے وقت جنتیوں میں سے ایک شخص نماز پڑھے گا۔۔۔ وہ اویس قرنی ہے۔۔۔) الخ، اس حدیث میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  کے مابین لمبا مکالمہ بھی ہے۔
اس لمبی حدیث کو  أبو نعيم نے " حلیۃ الأولياء " (2/81) میں نقل کیا ہے، اور اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ بھی کیاہے ، جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے " سلسلہ ضعیفہ"  میں حدیث نمبر: (6276)  کے تحت کہا ہے کہ یہ حدیث "منكر جدا" یعنی سخت  ضعیف ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الموضوعات" میں اویس قرنی کے بارے میں عنوان قائم کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"احادیث میں اویس قرنی کے بارے میں چند ایک  جملے صحیح ثابت ہیں، جو کہ اویس قرنی  رحمہ اللہ اور عمر رضی اللہ عنہ  کی باہمی گفتگو پر مشتمل ہیں، پھراس میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سنائی تھی کہ : (تمہارے پاس  اویس  آئے گا، چنانچہ اگر تم   ان سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  ضرور کروانا) لیکن قصہ گو لوگوں نے اس  حدیث کو  اتنا لمبا چوڑا کر کے بیان کیا جس کی تفصیل میں جانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں " انتہی مختصراً
" الموضوعات " (2/44)

سوم:

علمائے کرام نے  آپ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کچھ قصص ذکر کیے ہیں جن سے آپ کی نیکی تقوی، اور زہد  عیاں  ہوتا ہے، چنانچہ ان  میں سے مشہور ترین  قصہ  حافظ ابو نعيم نے اپنی عظیم کتاب: " حلیۃ الأولياء "  (2/79) میں اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ:
"ابو نضرہ، اسیر بن جابر سے بیان کرتے ہیں کہ: "ایک محدث کوفہ میں ہمیں حدیث بیان کر رہے تھے، جب حدیث بیان  کرنے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے [سب کو ]کہا: "اب تم  یہاں سے چلے جاؤ"، تاہم کچھ  لوگ  باقی بچ گئے،  اور ان میں ایک شخص گفتگو کر رہا تھا، میں نے اس جیسی گفتگو پہلے نہیں سنی تھی، وہ شخص مجھے اچھا لگنے لگا، ایک دن وہ مجلس میں نہ آیا، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: تم جانتے ہو ایک شخص ہمیں اچھی اچھی باتیں بتلایا کرتا تھا؟ تو ایک شخص نے کہا:  ہاں میں جانتا ہوں، اس کا نام اویس قرنی ہے،  تو میں نے کہا: تو کیا تم اس کا مکان جانتے ہو؟ ، تو اس نے کہا: ہاں جانتا ہوں، تو ہم  اکٹھے ان کے کمرے تک پہنچے، ہمارے پہنچنے پر اویس باہر آئے، تو میں نے استفسار کیا: "بھائی! آپ آج کیوں نہیں آئے؟" تو  انہوں نے کہا: "میرے پاس آج پہننے کیلئے کپڑے نہیں تھے" اسیر کہتے ہیں کہ: "لوگ ان کے ساتھ مذاق  بہت کرتے تھے، اور اذیت پہنچاتے تھے" اسیر کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: "یہ لباس لے لو، اور پہن لو" اویس نے کہا: "ایسے مت کرو،  اگر انہوں نے یہ لباس پہنے مجھے دیکھ لیا تو اور زیادہ تکلیف دیں گے"، تاہم میرے اصرار پر انہوں نے وہ لباس پہن  ہی لیا، اور اپنے ساتھیوں کے پاس چلے گئے، وہ ابھی ان کے پاس پہنچے ہی تھے کہ  ان کے ساتھیوں نے  کہا: کسے دھوکہ دینے کیلئے اپنا یہ لباس پہنا ہے؟ یہ سن کر وہ واپس آئے، اور لباس اتار دیا، اور کہا: "دیکھ لیا؟!"
یہ معاملہ دیکھ کر میں لوگوں کے پاس آیا اور انہیں کہا: "تم  اس شخص سے آخر چاہتے کیا ہو؟! تم نے اسے سخت تکلیف میں مبتلا کیا ہوا ہے، کپڑے نہ ہوں تب بھی، اور کپڑے پہن لے تب بھی! "اسیر کہتے ہیں : "میں نے انہیں سخت ڈانٹ پلائی " انتہی

چہارم:

اویس قرنی رحمہ اللہ سے بہت سے زریں اقوال منقول ہیں، جن سے حکمت و دانائی چھلکتی ہے:

سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"اویس قرنی کی ایک چادر تھی، جو زمین پر بیٹھے ہوئے زمین پر لگتی تھی، اس پر وہ کہا کرتے تھے:
"یا اللہ!  میں  ہر ذی روح  کے بھوکے اور ننگے ہونے پر تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، میرے پاس میری پشت پر موجود کپڑا ، اور  پیٹ میں موجود خوراک ہی ہے"انتہی
حاكم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں روایت کیا ہے۔

خوف الہی اور ہمیشہ اللہ تعالی کو اپنا نگہبان سمجھنے کے بارے میں اویس قرنی رحمہ اللہ کا قول ہے:
"اللہ کے عذاب سے ایسے ڈرو، کہ گویا تم نے سب لوگوں کا خون کیا ہوا ہے" انتہی
حاكم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں روایت کیا ہے۔

اصبغ بن زید کہتے ہیں:
" کسی دن شام ہوتی تو اویس قرنی  کہتے: "آج کی رات رکوع کی رات ہے" تو صبح تک رکوع کرتے ، اور کبھی شام کے وقت کہتے: "آج کی رات سجدے کی رات ہے" تو صبح تک سجدے میں پڑے رہتے، اور بسا اوقات شام کے وقت اپنے گھر میں موجود اضافی کھانا پینا، لباس سب کچھ صدقہ کر دیتے، اور پھر کہتے: "یا اللہ! اگر کوئی بھوک سے مر گیا تو میرا مواخذہ مت کرنا، اور اگر کوئی ننگا فوت ہوگیا تو میرا مواخذہ مت کرنا" انتہی

اسی طرح ابو نعیم "حلیۃ الاولیاء"(2/87) میں کہتے ہیں:
"صبح تک رکوع کرتے۔۔۔ صبح تک  سجدے میں پڑے رہتے"  کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں رکوع اتنا لمبا کرتے تھے کہ صبح ہو جاتی، اور پھر دوسری رات میں سجدہ اتنا لمبا کرتے کہ صبح ہو جاتی تھی"

شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مراد قبیلے کا ایک شخص اویس قرنی کے پاس سے گزرا، اور استفسار کیا:
"  صبح کیسے ہوئی؟" تو اویس نے کہا:  "الحمد للہ  کہتے ہوئے میں نے صبح کی ہے"
اس نے کہا: "زندگی کیسے گزر رہی ہے؟"
انہوں نے کہا: "ایسے شخص کی کیا زندگی  جو صبح ہو جائے تو سمجھتا ہے کہ آج شام نہیں ہوگی، اور اگر شام ہو جائے تو سمجھتا ہے کہ صبح نہیں ہوگی، پھر [مرنے کے بعد ] جنت کی خوشخبری دی جائے گی، یا پھر جہنم کی۔
قبیلہ مراد کے فرد! موت کی یاد کسی مؤمن کیلئے خوشی  باقی نہیں رہنے دیتی، اور اگر مؤمن کو اپنے اوپر واجب حقوق الہی  معلوم ہو جائیں تو اپنے مال میں سونا چاندی کچھ بھی نہ چھوڑے، [سارا صدقہ کر دے] اور اگر حق کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو اس کا کوئی دوست بھی باقی نہ رہے" انتہی
" حلیۃ الأولياء " (2/83) اور حاکم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں  بھی نقل کیا ہے۔

پنجم:

اکثر اہل علم  اس موقف پر ہیں کہ انکی وفات جنگ صفین   میں سن 37 ہجری میں ہوئی ہے، کہ انہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر جنگ لڑی اور وہیں پر آپ شہید ہوئے، اس موقف کو حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک"(3/460) میں  شریک بن عبد اللہ، اور  عبد الرحمن بن ابی لیلی وغیرہ سے با سند بیان کیا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ انہوں نے آذربائیجان  کی جنگوں میں شرکت کی اور وہیں پر شہید ہوئے، دیکھیں: " حلیۃ الأولياء " (2/83 )

تاہم پہلے موقف کے اکثر اہل علم  قائل ہیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب