الحمد للہ.
اول:
بڑے دکھ کی بات ہے کہ کچھ نوجوان جنہیں شرعی علم حاصل کرنے کا شوق ہے اور اس کیلیے کوشش بھی کرتے ہیں وہ اپنے گھر کے ذمیہ کام ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں، اسی طرح اپنی دنیاوی تعلیم کا حق بھی ادا نہیں کرتے، یقیناً اس کی وجہ سے گھر والوں کو منفی تاثر ملے گا، جس سے گھر والے اپنے بچوں کو دینی علوم حاصل کرنے سے روکتے ہیں، انہیں دینی کیسٹیں سننے نہیں دیتے، دینی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے منع کرتے ہیں، یہ سب کچھ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول ، کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم میں کوتاہی برتتے ہوئے دیکھتے ہیں، چنانچہ اگر گھر والوں کو یہ موقع ہی نہ دیں اور تمام ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیں ، عصری اور دینی دنوں علوم کو پورا پورا وقت دیں تو گھر والے کبھی بھی کیسٹ سے درس سننے یا کسی دینی مجلس میں جانے اور شرعی کتاب پڑھنے سے منع نہ کریں۔
اس لیے نوجوانوں کو خیال کرنا چاہیے ۔بہت سے جوانوں کے اہل خانہ اور سر پرست اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں کوتاہی کی شکایت کرتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ امتحانات میں بسا اوقات فیل بھی ہو جاتے ہیں، اور گھر والوں کو ان کے اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ لوگ تعلیمی سرگرمیوں کا اہتمام تو بہت زیادہ کرتے ہیں یہاں تک کہ کچھ تو اپنے بچوں کو نماز و غیرہ کے بارے میں بھی نہیں کہتے مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے کی ترغیب دلانا تو دور کی بات ہے، حقیقت میں ایسے لوگوں نے اسکولوں کی نصابی سرگرمیوں کو تو بہت اہمیت دی ہوئی ہے بلکہ اسی کو کامیابی اور ناکامی کی بنیاد بتلاتے ہیں، چنانچہ جس کے پاس ڈگری ہو اسی کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہی زندگی گزار پائے گا اسی کو کھانے پینے کیلیے ملے گا اور شادی کر پائے گا، جس کے پاس ڈگری نہیں ہو گی وہ نا مراد ہی رہے گا، اس کی زندگی خوشحال نہیں ہو گی، حالانکہ ہمیں زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں، بہر حال ہم ایسے نوجوانوں کے والدین سے امید کرتے ہیں کہ جن کے بچے اللہ تعالی کی اطاعت پر گامزن ہیں ، اور وہ دینی علم کیلیے رغبت بھی رکھتے ہیں تو ان پر عصری تعلیم حاصل کرنے کیلیے زیادہ دباؤ مت ڈالیں ، اور دوسری جانب ہم نوجوانوں سے بھی امید کرتے ہیں کہ دونوں ضروریات کو پورا پورا وقت دیں، اس کیلیے اپنے اوقات فضول میں ضائع کرنے کی بجائے ان اوقات کو عصری اور دینی تعلیم کے حصول میں صرف کریں۔
دوم:
اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق شرعی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی والدہ کی بات پر بھی عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ آپ کو کسی غلط چیز کا حکم نہیں دے رہیں تو ہم آپ کو جو ابھی کہنا چاہتے ہیں اس پر عمل کریں، امید ہے کہ آپ کو اس سے فائدہ ہو گا۔
1- سب سے پہلے اپنے دوست اچھے لڑکوں کو بنائیں، برے دوستوں سے دور رہیں، کیونکہ اچھے دوستوں کی وجہ سے آپ کا وقت بچے گا، آپ ہمیشہ ان کاموں کو ذہن نشین رکھیں جو آپ کے ذمہ ہیں، آپ اگر شرعی علوم حاصل کرنے والے اچھے دوستوں کے ساتھ رہو گے تو وہ آپ کو اسکول کالج کی تعلیم کیلیے بھی وقت مختص کرنے کا کہیں گے، آپ کو ان میں ایسے دوست بھی ملیں گے جو آپ کی اچھی رہنمائی کریں گے، جبکہ برے دوست آپ کو اچھے کام پر نہیں لگائیں گے اور نہ ہی اچھے کام کی رہنمائی کریں گے۔
2- اپنے وقت کا گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے خیال کریں، آپ کسی بھی وقت میں سستی کا مظاہرہ مت کریں، چنانچہ وقت کی قدر کرنے کیلیے اپنے یومیہ نظام العمل (شیڈول)میں اضافی مطالعہ ، دینی اسباق ، اور عصری علوم کے ذمیہ کام کو خصوصی توجہ کے ساتھ شامل کریں۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان کا وقت ہی حقیقت میں اس کی عمر ہوتی ہے، چنانچہ دائمی نعمتوں والی ابدی
زندگی کا جوہر اور درد ناک عذاب والی تکلیفوں اور سختی والی زندگی کا جوہر بھی یہی
وقت ہے، یہ بادلوں کی رفتار سے بھی تیزی سے گزرتا ہے۔
انسان کا جو وقت اللہ کیلیے ہو، اور اللہ کی یاد میں ہی گزرے، تو حقیقت میں وہی
زندگی ہے ، اس کے علاوہ کہیں بھی وقت گزارے تو وہ اس کی زندگی میں شمار نہیں ہوتا،
اگرچہ وہ زندہ بھی ہو تو اس کی زندگی حیوان کی زندگی جیسی ہوتی ہے وہ اپنے وقت کو
یادِ الہی سے غافل رہ کر شہوت اور باطل خواہشات میں گزار دیتا ہے، حالانکہ اگر وہ
اپنا وقت سو کر یا فارغ رہ کر گزار لیتا یہ اس کیلیے قدرے بہتر تھا، یہی وجہ ہے کہ
اس کیلیے زندگی کی بجائے موت بہتر ہو گی" انتہی
" الجواب الكافی" ( ص 109 )
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جن کے ہاں وقت کی قدر درہم و دینار سے بھی
زیادہ ہوتی تھی"
3- کام کرنے کیلیے اپنا ایک منظم طریقہ کار بنائیں، اپنے وقت کا نظام الاوقات تیار کریں، اس کیلیے آپ ہر چیز کو اس کے لحاظ سے وقت دیں، اپنی نیند کیلیے وقت مقرر کریں، شرعی علم حاصل کرنے کیلیے وقت مقرر کریں اور اپنی جامعہ کی پڑھائی کیلیے بھی وقت مختص کریں، اور اس کے علاوہ کسی چیز کو اپنے نظام الاوقات میں شامل مت کریں ۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ خود اور ایک انصاری صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حصولِ علم کیلیے باری باری آتے تھے، اس طرح انہوں نے حصولِ رزق کو حصولِ علم میں رکاوٹ نہیں بننے دیا، اور دونوں امور کو بڑی خوش اسلوبی سے یکجا کر لیا اور دونوں میں سے کسی کے حق میں کمی بھی نہیں کی۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں اور میرا انصاری پڑوسی جو کہ بنو
امیہ بن زید کے محلے میں عوالی کے علاقے میں رہتا تھا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس آنے کیلیے اپنی باریاں لگائی ہوتی تھیں، ایک دن وہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور دوسرے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت
میں حاضر ہو کر علم حاصل کرتا، جس دن میں جاتا تو اس دن نازل ہونے والی وحی اور
دیگر چیزیں میں اپنے پڑوسی کو بتلا دیتا اور جب وہ جاتا تو وہ بھی اسی طرح کرتا تھا۔
بخاری: ( 89 ) اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا ہے: "باب ہے: حصولِ
علم کیلیے باریاں لگانے کے بارے میں" اور مسلم ( 1479 ) میں بھی اسی طرح کا باب ہے۔
4- یہ واضح رہے کہ جامعہ کی تعلیم کا دورانیہ محدود ہوتا ہے، جبکہ شرعی علم حاصل کرنے کا دورانیہ بہت لمبا ہوتا ہے جو کہ موت تک جاری رہتا ہے، اس لیے محدود دورانیے والی تعلیم کو لمبے عرصے تک جاری رہنے والی تعلیم کیلیے جلدی سے مکمل کر لو، تا کہ آپ اس لمبے سفر کے راستے میں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہیں۔
5- جو کچھ آپ شرعی علم حاصل کر چکے ہیں اس کی عملی طور پر ترجمانی کریں، لہذا آپ کے شرعی علم کے اثرات آپ کے عمل پر نمودار ہونے چاہییں، اس بنا پر آپ سے امید ہے کہ: آپ اپنے والدین کے ساتھ پہلے سے زیادہ حسن سلوک سے پیش آئیں گے، اور آپ اپنے آپ کو ان محنتی بچوں میں شامل کریں گے جو دانش، دوسروں سے محبت اور پاک صاف دل و جان رکھتے ہیں، آپ نے جو کچھ سیکھا ہے اسے عملی طور پر نافذ کر کے اپنے خاندان ، معاشرہ اور اردگرد کے لوگوں کیلیے کچھ کر کے دکھائیں گے، آپ کا دوسروں کو یہ پیغام ہو گا کہ: اسلام اخلاقیات کی دعوت دیتا ہے، اسلام اور عصری علوم کا آپس میں کوئی تصادم نہیں ہے، بلکہ شرعی علم حاصل کرنے والا ہی دیگر نوجوانوں کیلیے ہر اعتبار سے آئیڈیل شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔
جو کچھ ہم نے اپ کے لیے بیان کیا ہے اس نافذ کرنے کیلیے اللہ تعالی سے مدد مانگو اور ہمیشہ اللہ تعالی سے دعا گو رہو کہ آپ کو سیدھے راستے پر گامزن رکھے اور کامیابیاں عطا فرمائے۔
واللہ اعلم.