جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

احرام كے وقت مشروط احرام نہيں باندھا اور مكہ نہ جانے ديا جائے اور واپس اپنے ملك جانے كى صورت ميں كيا حكم ہو گا

سوال

ميں نے مدينہ كے ميقات ذوالحليفہ سے احرام باندھا ليكن شرط نہ لگائى، اور ويزہ ختم ہونے كى بنا پر پوليس نے مكہ نہيں جانے ديا تو ميں اپنے ملك واپس آ گيا، اب مجھے يہ بتائيں كہ ميرے ذمہ كيا لازم ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس شخص نے عمرہ يا حج كا احرام باندھا اور پھر كسى مانع كى بنا پر اسے بيت اللہ تك جانے سے روك ديا گيا اگر تو اس شخص نے احرام باندھتے وقت شرط لگائى اور " اللھم محلى حيث حبستنى " يعنى اے اللہ مجھے جہاں روك ديا گيا ميں وہاں حلال ہو جاؤنگا اس پر كوئى شئ نہيں ہوگى.

ليكن اگر اس نے احرام باندھتے وقت شرط نہ لگائى ہو تو وہ محصر شمار ہوگا اور جہاں اسے روك ديا گيا ہے وہ وہيں ايك بكرى ذبح كر كے حلال ہو جائيگا، چاہے وہ حرم كى حدود ميں ہو يا حرم كى حدود سے باہر حل ميں، اور وہ گوشت وہاں كے فقراء و مساكين ميں تقسيم كيا جائيگا يا پھر اسے حرم كے فقراء كو لے جا كر ديا جائيگا، پھر وہ حلق كرا كر يا بال چھوٹے كروا كے حلال ہو جائيگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اللہ كے ليے حج اور عمرہ مكمل كرو، اور اگر تمہيں روك ديا جائے تو جو قربانى ميسر ہو كرو، اور اس وقت اپنے سر نہ منڈواؤ جب تك قربانى اپنے حلال ہونے كى جگہ نہ پہنچ جائے البقرۃ ( 196 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم اس پر متفق ہيں كہ جب محرم شخص كو مشركين ميں سے يا كوئى اور دشمن روك دے اور اسے بيت اللہ تك نہ جانے دے اور وہ كوئى پرامن راستہ نہ پائے تو اسے احرام سے حلال ہونے كا حق حاصل ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے بالنص بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور اگر تمہيں روك ديا جائے تو جو قربانى ميسر ہو كرو .

اور حديث سے ثابت ہے كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حديبيہ كے مقام پر روك ديا گيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو حكم ديا كہ وہ قربانى كر كے سر منڈوا كر حلال ہو جائيں، چاہے كسى نے حج عمرہ كا باندھ ركھا تھا يا حج كا يا دونوں كا.

ہمارے امام ( امام احمد رحمہ اللہ ) اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے....

اكثر اہل علم كے قول كے مطابق محصر شخص يعنى جسے روك ديا گيا ہو اس پر بطور ھدى جانور قربان كرنا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو اگر تمہيں روك ديا جائے تو جو قربانى ميسر ہو .

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: مفسرين كے ہاں اس آيت كى تفسير ميں كوئى اختلاف نہيں ہے كہ يہ آيت حديبيہ كے موقع پر روك ديے جانے پر پر نازل ہوئى " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 3 / 172 ).

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ حج تمتع كرنے والے پر قياس كرتے ہوئے محصر شخص كے پاس قربانى نہ ہو تو وہ دس روزے ركھے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے تو يہى اختيار كيا ہے كہ محصر شخص كے پاس اگر ھدى اور قربانى نہ ہو تو اس پر روزے لازم نہيں ہونگے، اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے احصار والى آيت ميں اس كا ذكر نہيں فرمايا.

اور اس ليے كہ صلح حديبيہ كے موقع پر صحابہ كرام كى حالت سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ لوگ غريب و فقراء تھے، اور پھر حديث ميں يہ بھى وارد نہيں كہ جس كے پاس قربانى نہ تھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے دس روزے ركھنے كا نہيں كہا.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 184 ، 185 ).

اس بنا پر اب آپ پر واجب ہے كہ آپ كسى شخص كو مكہ ميں بكرا ذبح كر كے گوشت فقراء و مساكين كو تقسيم كرنے كا وكيل بنائيں، پھر آپ حلق يا قصركروا كر حلال ہو جائيں.

حلال ہونے تك آپ كے ليے احرام كى ممنوعہ اشياء سے پرہيز كرنا ہوگى.

اور جہالت كے عرصہ ميں اگر كوئى ممنوعہ كام جہالت كى وجہ سے ہوا ہے تو آپ پر كچھ لازم نہيں ہوتا.

اور اگر آپ ہدى ذبح نہيں كر سكتے تو آپ حلق يا قصر كروا كر احرام سے حلال ہو جائيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب