الحمد للہ.
" مومن پر واجب ہے كہ وہ جب رمضان المبارك آ جائے تو رمضان كے روزے ركھے، اور اگر وہ سخت كام كرتا ہے تو اسے روزہ كى بنا پر اپنے كام ميں تخفيف كر لينى چاہيے، وہ اس طرح كہ كام مناسب وقت يعنى دن كے شروع ميں كر لے، اور پھر اس كے بعد مشقت والا كام نہ كرے، تا كہ روزہ پورا كر سكے.
اللہ سبحانہ و تعالى نے روزہ ركھنا فرض كيا ہے، اور اسے دين اسلام كے اركان ميں سے ايك ركن قرار ديا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلامى كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: يہ گواہى دينا كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں، اور نماز قائم كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور استطاعت ہونے كى صورت ميں بيت اللہ كا حج كرنا "
اس ليے ہر مسلمان پر اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا فرض ہيں، اور ہر اس چيز سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جو اس ماہ كے روزے ركھنے ميں مانع ہو، كام تو ختم ہى نہيں ہوتے، اور پھر كام كرنے كے ليے تو اور بھى بہت وقت ہيں.
مومن كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ وہ كام رات كو كر لے يا پھر دن كى ابتدا ميں كام كرے تا كہ اسے دوپہر كے وقت كام كرنے كى مشقت نہ كرنى پڑے.
مقصد يہ ہے كہ آپ ايسے اسباب پر عمل كريں جو آپ كے ليے روزہ ركھنے اور ايسے طريقہ سے كام كرنے ميں ممد و معاون ہوں، اور كام آپ كو نقصان نہ دے، آپ پر يہى واجب ہے، آپ كے ليے روزہ چھوڑنا جائز نہيں " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.