جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

رضاعى والد كى دوسرى بيوى كى اولاد بھى رضاعى بھائى ہيں

128483

تاریخ اشاعت : 15-02-2010

مشاہدات : 5584

سوال

ميں نے ايك عورت كا دودھ پيا پھر اس كے خاوند نے ايك عورت سے شادى كر لى اور اس بيوى سے بچے پيدا ہوئے تو كيا يہ بھى ميرے بھائى ہونگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو پانچ رضاعت اور اس سے زيادہ ہوں اور دودھ خاوند كى طرف منسوب ہو كيونكہ اس خاوند كى اولاد ہے تو وہ آپ كے رضاعى والد اور والدہ كى جانب سے رضاعى بھائى ہونگے، اور رضاعى والد كى دوسرى بيوى بچے بھى آپ كے رضاعى والد كى جانب سے رضاعى بھائى ہونگے.

اور ايك رضاعت يا رضعہ يہ ہے كہ بچے ماں كا پستان منہ ميں ڈال كر دودھ چوسے اور پھر كسى بھى سبب سے چھوڑ دے پھر پستان منہ ميں ڈال كر دودھ پينا شروع كر دے حتى كہ دودھ اس كے پيٹ ميں چلا جائے اور پھر چھوڑ دے اور پھر پينا شروع كر دے اسى طرح پانچ بار يا اس سے زائد بار كرے چاہے يہ ايك ہى مجلس ميں ہو يا پھر كئى دفعہ ميں ايك ہى دن ميں ہو يا كئى دنوں ميں ليكن شرط يہ ہے كہ بچہ دو برس كى عمر سے زائد نہ ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رضاعت دو برس كى عمر ميں ہوتى ہے "

اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سھلۃ بن سھيل كو فرمايا تھا:

" سالم كو پانچ رضاعت دودھ پلا دو تم اس پر حرام ہو جاؤ گى "

اور اس ليے بھى كہ صحيح مسلم اور جامع ترمذى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں:

" قرآن مجيد ميں دس رضعات معلوم نازل ہوئى تھيں جن سے حرمت ثابت ہو جاتى تھى، پھر اسے پانچ معلوم رضاعت كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات تك ايسے ہى تھا "

يہ لفظ ترمذى كے ہيں.

اللہ تعالى سب كو اپنے رضا والے كام كرنے كى توفيق دے " انتہى

ماخذ: الاسلام سوال و جواب