الحمد للہ.
"کاروباری شریک کبیرہ گناہوں میں ملوث ہو، یا کچھ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو تو یہ کاروباری شراکت کے صحیح ہونے میں رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اگر شریک ایسے کاموں میں ملوث ہے جس سے شراکت کو نقصان ہو مثلاً: شراکت میں سودی لین دین کرے، یا رشوت خوری سے کام لے، یا کوئی بھی ایسا مالی لین دین کرے جس سے شراکت کے سرمائے میں حرام کا عنصر شامل ہو تو پھر ایسے شخص کے ساتھ کاروباری شراکت محل نظر ہے۔ ایسے میں آپ کو چاہیے کہ آپ اس سے راستہ جدا کر لیں اور شراکت ختم کر دیں، تا کہ آپ حرام خوری میں ملوث نہ ہوں اور نہ ہی حرام کام پر خاموش رضا مندی کا باعث بنیں۔
لیکن اگر شریک میں پائی جانے والی غلطیوں کا تعلق کاروباری شراکت سے نہیں ہے ، مثلاً: آپ اسے کاروباری شراکت سے باہر غلط کاموں میں ملوث سمجھتے ہیں جیسے کہ زنا اور شراب نوشی وغیرہ تو اگر شراکت داری کے تمام معاملات شریعت کے مطابق ہیں تو پھر یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے اور نہ ہی کمپنی کے لیے ۔ آپ کو ایسے شخص کے کاروباری شراکت جاری رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کاروباری شراکت نہیں رکھنی چاہیے تاکہ ایسے شخص کی قرابت کی وجہ سے آپ کو نقصان نہ ہو اس لیے محتاط اور بہتر عمل یہی ہو گا کہ اس کے ساتھ شراکت داری ختم کر دیں۔ لیکن اگر کچھ دیر کے لیے شراکت داری مزید چلتی رہے تو یہ کمپنی کے لیے مضر نہیں ہے؛ کیونکہ شریک کا گناہ اسی پر ہے، جبکہ شراکت داری کے لیے مضر تب ہوتا جب شریک کے گناہوں کا تعلق سود، مالی خیانت، یا حرام چیزوں کی خرید و فروخت کے لیے انہیں کمپنی میں لانا، یا کسی بھی قسم کی رشوت، مالی خیانت اور سود وغیرہ جیسی منفی حرکتوں کو کمپنی میں رواج دے۔" ختم شد
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ
"فتاوى نور على الدرب" (3/1459)