الحمد للہ.
بيويوں كے مابين جس چيز ميں تقسيم ہوتى ہے وہ يہ ہيں: اپنى بيويوں كے مابين وقت كى تقسيم اگر دو يا اس سے زيادہ ہوں " انتہى
ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 198 ).
فقھاء اس پر متفق ہيں كہ مرد پر واجب ہے كہ اگر اس كى ايك سے زيادہ بيوياں ہيں تو وہ اپنى بيويوں كے مابين تقسيم ميں عدل كرے، اور ان ميں برابرى سے كام لے؛ كيونكہ ايسا كرنا حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے جس كا اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو .
اور جب بيويوں كے مابين تقسيم ميں برابرى نہ كى جائے تو يہ حسن معاشرت نہيں ہو گى "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 183 ).
" اور تقسيم ميں جو عدل كرنا ضرورى ہے وہ اس چيز ميں ہونا چاہيے جس كا وہ مالك ہے اور جس كى قدرت و استطاعت ركھتا ہے مثلا رات بسر كرنے ميں، اور مانوس ہونے وغيرہ ميں ليكن جس كا وہ مالك ہى نہيں اور جس كى قدرت و استطاعت نہيں ركھتا مثلا وطئ اور جماع اور اس كے اسباب مثلا ميلان قلبى اور محبت ميں تو اس سلسلہ ميں خاوند كے ليے بيويوں كے درميان عدل كرنا واجب نہيں "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 185 ).
" ليكن فقھاء كا اس ميں اختلاف ہے كہ خاوند ايك بيوى كى بارى ميں دوسرى بيوى كے پاس رات يا دن ميں جا سكتا ہے يا نہيں، اس ميں انہوں نے تفصيل بيان كى ہے:
شافعيہ اور حنابلہ كہتے ہيں كہ: ايك بيوى كى بارى ميں خاوند كو حق نہيں كہ وہ رات كے وقت دوسرى بيوى كے پاس جائے، كيونكہ ايسا كرنے ميں بارى والى بيوى كا حق باطل ہوتا ہے، مگر ضرورت كے وقت جا سكتا ہے مثلا وہ شديد بيمار ہويا شديد قسم كى درد اور جلنے اور ڈاكے وغيرہ كاخطرہ ہو، تو اس وقت اگر وہ عرف سے زيادہ دير وہاں رہے تو اس بارى والى كى بارى كى قضا كريگا يعنى اسے دوبارہ بارى ديگا، ليكن اگر وہ وہاں زيادہ دير نہيں لگاتا تو پھر قضا نہيں.
اور اگر خاوند ايك بيوى كى بارى ميں كسى دوسرى بيوى كے پاس ضرورت كى بنا پر دن كو گيا تو يہ جائز ہے؛ كيونكہ دن كو وہ كچھ معاف ہو سكتا ہے جو رات كو معاف نہيں ہو سكتا، چنانچہ وہ اس كے پاس كوئى سامان ركھنے مثلا پيسے وغيرہ دينے اور اس كى خبر دريافت كرنے اور عيادت كرنے جا سكتا ہے... كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا كوئى ہى ايسا دن گزرتا جس ميں وہ ہم سب كے پاس نہ آتے ہوں، تو وہ ہم بسترى كيے بغير ہر بيوى كے قريب ہوتے، حتى كہ اس كے پاس چلے جاتے جس كے پاس رات بسر كرنے كى بارى ہوتى "
چنانچہ جب وہ اس ميں سے كسى چيز كے ليے دوسرى بيوى كے پاس جائے اور وہاں زيادہ دير نہ رہے اور بقدر ضرورت بغير جماع كيے رہے تو جائز ہے.
احناف كہتے ہيں:
خاوند كے ليے رات ميں سب بيويوں كے درميان عدل كرنا لازم ہے.
اور بارى اس ميں مانع نہيں كہ وہ دوسرى كى ضروريات ديكھنے اور اس كے امور حل كرنے اس كے گھر جائے، صحيح مسلم ميں ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سب بيوياں اس بيوى كے گھر اكٹھى ہوا كرتى تھيں جس كى بارى ہوتى "
اور مالكيہ كہتے ہيں:
" خاوند كسى ايك بيوى كى بارى والے دن اس كى سوكن كے گھر داخل نہ ہو، يعنى اس كے ليے ممنوع ہے؛ الا يہ كہ وہ كسى ضرورت كے پيش نظر جا سكتا ہے مثلا كوئى چيز كپڑا وغيرہ دينے كے ليے ليكن اس سے استمتاع وغيرہ نہ كرے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 195 - 197 ).
اور بھوتى حنبلى كہتے ہيں:
" بارى والى كے علاوہ كسى اور بيوى كے پاس جانا حرام ہے ليكن ضرورت كے ليے جا سكتا ہے، اور اسى طرح اس كے دن ميں بھى نہيں مگر ضرورت سے "
ديكھيں: الروض المربع ( 6 / 449 ).
اور ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور خاوند كى بيوى كى بارى اور وقت ميں اس كى سوكن كے پاس جانا اگر رات كے وقت ہو تو ضرورت كے بغير سوكن كے گھر جانا جائز نہيں مثلا اس كو كوئى تكليف ہو اور خاوند اس كے پاس جانا چاہتا ہو، يا پھر بيوى اسے آنے كى وصيت كرے يا اس كے پاس جائے بغير كوئى چارہ نہيں ہو، اگر وہ ايسا كرتا ہے اور وہاں زيادہ دير نہيں ركتا تو اس پر كوئى قضاء نہيں، ليكن اگر وہ وہاں ركا رہے اور بيمار بيوى تندرست ہو جائے تو جس بيوى كى بارى ميں اس نے جتنا وقت دوسرى بيوى كے پاس گزارا ہے وہ بارى والى بيوى كے پاس اتنا وقت گزارے گا جتنا بيمار بيوى كے پاس رہا تھا.
اور رہا كسى دوسرى بيوى كى بارى كے دن ميں اور بيوى كے پاس جانے كا تو ضرورت كے وقت ايسا كرنا جائز ہے مثلا اسے خرچہ يا كوئى چيز دينى ہو يا بيمارى پرسى كرنا ہو يا كسى ايسے معاملہ كے متعلق دريافت كرنا ہو جس كے متعلق سوال كرنے كى ضرورت ہو، يا پھر اس كے پاس گئے زيادہ مدت ہو گئى ہو تو اسے ملنا ہو يا اس طرح كى كوئى اور ضرورت؛ اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرى بارى كے دن كے علاوہ ميرے پاس آتے اور مجھ سے جماع كے علاوہ سب كچھ پاتے "
اور جب وہ بارى كے علاوہ كسى اور بيوى كے پاس دن كو جائے تو اس سے جماع نہ كرے اور نہ ہى اس كے پاس زيادہ دير رہے؛ كيونكہ اس سے اس كے پاس رہنا حاصل ہوتا ہے اور وہ بيوى اس كى مستحق نہيں كيونكہ دوسرى كى بارى ہے.... اور اگر وہ اس كے اس زيادہ دير رہتا ہے تو وہ اس كى قضاء كريگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 234 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے دوسرى شادى كى اور پہلى بيوى بيمار ہے اس نے دونوں بيويوں كے ليے رہائش مقرر كر دى ہے اور كہتا ہے كہ پرانے گھر ميں مجھے ديكھ بھال نہيں ملتى اور نئے گھر ميں مجھے ديكھ بھال ملتى ہے اور ميرى خدمت ہوتى ہے، تو كيا زيادہ خدمت كى بنا پر اگر ميں اپنے دوسرے گھر ميں زيادہ رہوں تو كيا گنہگار ٹھرونگا ؟
اور كيا اگر ميں دوسرى بيوى كے گھر زيادہ نيند كروں تو كيا گنہگار شمار ہوتا ہوں، ميرا مقصد كوئى غلط بيانى نہيں كرنا بلكہ وہى ہے جو ميں بيان كر رہا ہوں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" بيويوں كے مابين كھانے پينے اور رہائش اور لباس اور مبيت يعنى رات بسر كرنے ميں برابرى اور عدل كرنا واجب ہے اور يہى اصل ہے، آپ كو اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے حسب استطاعت ان دونوں كے مابين عدل و انصاف سے كام لينا چاہيے اور اگر آپ دونوں ميں ايك كو مذكورہ اسباب كى بنا پر دوسرى بيوى پر ترجيح دينا چاہتے ہيں تو پھر آپ كے ليے دوسرى بيوى سے اجازت لينا ضرورى ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 19 / 179 - 180 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
پہلى بيوى كى بارى كے دن ميں دوسرى بيوى كے بچوں كو دن كے وقت ـ جب بچے سكول سے واپس گھر آ جائيں ـ تعليم دينے جانے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" يہ جائز نہيں، حرام ہے "
سوال:
ليكن انہيں پڑھائى كى ضرورت ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" وہ انہيں لے كر دوسرى بيوى كے گھر چلا جائے " انتہى
مزيد آپ سوال نمبر ( 4031 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس بيوى كى بارى ہو اس كے علاوہ كسى دوسرى بيوى كے گھر رات كے وقت يا دن كے وقت بغير ضرورت جانا حرام ہے چنانچہ اس ميں صحيح يہ ہے كہ يہ وقت كى عادت اور لوگوں كے رواج اور عرف كے مطابق ہو گا، اگر ايك بيوى كى بارى ميں رات كے وقت يا دن كے وقت دوسرى بيوى كے پاس جانے كو لوگ ظلم و ستم شمار نہيں كرتے تو عادت كى طرف لوٹانا اصل كبير ہے، خاص كر ان مسائل ميں جن پر كوئى دليل نہيں ملتى اور يہ بھى اسى ميں شامل ہوتا ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃالمسلمۃ جمع و ترتيب اشرف عبد المقصود ( 2 / 693 ).
اور مزيد آپ سوال نمبر ( 111912 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
خلاصہ كلام يہ ہوا كہ:
ـ خاوند كے ليے ايك بيوى كى بارى ميں دوسرى بيوى كے بچوں اور بيوى كے حالات دريافت كرنا جائز ہيں ليكن وہ وہاں زيادہ دير نہ ٹھرے.
ـ خاوند كے ليے ايك بيوى كى بارى ميں دوسرى بيوى كے بچوں كو لے كر جس بيوى كى بارى ہو اس كے گھر لے جا كر اپنى اولاد كى ديكھ بھال اور خيال كرنا ممكن ہے.
ـ خاوند كو چاہيے كہ وہ ايك بيوى سے دوسرى بيوى كے پاس بعض اوقات عادت سے زيادہ اپنے بچوں كى مصلحت كى خاطر وہاں رہنے كى اجازت لے .
ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كے خاوند كا تصرف اور معاملہ صحيح ہے، اور اگر وہ آپ كے پاس آپ كى بارى كے علاوہ اوقات ميں زيادہ دير رہنا چاہے تو وہ دوسرى بيوى سےاس كى اجازت حاصل كرے اور اس كى رضامندى سے ايسا كرے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اولاد كى تربيت كرنے ميں آپ كى معاونت فرمائے اور آپ كو ہر قسم كى بھلائى كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .