ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

خاوند سے عليحدہ دوسرے ملك ميں رہنے والى بيوى كو اپنے خاوند كے پاس جانا چاہيے

129704

تاریخ اشاعت : 15-04-2012

مشاہدات : 4906

سوال

دو روز قبل ميں نے سوال كيا تھا ليكن ابھى تك ا سكا جواب نہيں ديا گيا، كيا آپ كے ليے ميرے سوال كا جواب دينا ممكن ہے تا كہ ميرى مشكل حل ہو سكے اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
ميرى ايك برس قبل شادى ہوئى تھى ليكن مجھے يہ سمجھ نہيں آ رہى كہ اگر مجھے يہاں كوئى ملازمت مل جائے تو ميں اپنے خاوند كو يہيں بلا لوں، يا پھر خاوند كے ساتھ رہنے كے ليے پاكستان چلى جاؤں، حالانكہ ميرے خاوند نے مجھے كچھ نہيں كہا يہاں رہوں يا پاكستان چلى جاؤں، يہاں لندن ميں ميرا ايك دو كروں پر مشتمل اپنا ملكيتى گھر ہے اور مجھے حكومت كى جانب سے ماہانہ الاونس بھى ملتا ہے.
نہ تو ميرا خاوند ميرے كوئى حقوق ادا كرتا ہے، اور نہ ہى ميں اس كا كوئى حق ادا كرتى ہوں، ليكن اگر ميں اسے يہاں لندن بلاتى ہوں تو اس كا معنى يہ ہوگا كہ ميں يہاں مرد و عورت كے مخلوط ماحول ميں ملازمت كرونگى، جو كہ ميں نہيں كرنا چاہتى، تو كيا ميرے ليے ايسے ماحول ميں ملازمت كرنى جائز ہے، حالانكہ مجھے علم ہے كہ ميرا خاوند پاكستان ميں ميرا سارا خرچ برداشت كر سكتا ہے، تو كيا مجھے پاكستان جا كر اپنے خاوند كے حقوق ادا كرنے چاہيں تا كہ وہ بھى ميرا حقوق ادا كر سكے ؟
اور كيا اگر وہ مجھے پاكستا بلانا چاہے تو ٹكٹ خاوند كے ذمہ ہوگى يا نہيں، اور حكومت سے جو معاونت حاصل كر رہى ہوں كيا وہ حرام شمار ہوگى يا نہيں، كيونكہ ميرے خاوند كى مالى حالت اچھى ہے، ميرى بچے كے ميرے خاوند پر كيا حقوق ہونگے، كيونكہ ميرى بچى كا باپ يہاں لندن ميں رہتا ہے اور جس چيز كى ضرورت ہو وہ بڑى خوشى سے بچى كو لا كر ديتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ازدواجى زندگى ميں استقرار اسى وقت پيدا ہوتا ہے جب خاوند اور بيوى آپس ميں محبت و مودت اور الفت پيار اور خير و بھلائى ميں دنيا و آخرت كے معاملات ميں ايك دوسرے كے تعاون پر اكٹھے رہيں.

يہ كوئى ازدواجى زندگى نہيں كہ آپ كسى اور ملك ميں رہيں اور آپ كا خاوند دوسرے ملك ميں رہتا ہو، اس طرح تو نہ وہ وہ آپ كے حقوق ادا كر سكےگا اور نہ ہى آپ اس كے حقوق حسن سلوك سے ادا كر سكتى ہيں، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو دونوں كو حسن سلوك اور اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كرنے كا حكم ديا ہے، اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب خاوند اور بيوى اكٹھے رہيں.

اس ليے آپ خاندان كو جمع كرنے كى كوشش كريں تا كہ محبت و الفت اور مودت قائم ہو سكے.

اور اگر آپ كے خاوند كا آپ كے پاس لندن ميں آنے كا معنى يہ ہو كہ آپ مرد و عورت كے مخلوط ماحول ميں ملازمت اختيار كريں اور آپ كا خاوند بغير ملازمت كے رہے تو يہ حرام ہے كيونكہ مرد و عورت كے مخلوط ماحول ميں عورت كے ليے ملازمت كے حرام ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اور خاندان كے افراد كے دين اور اخلاق پر اس كا بہت برا اثر پڑتا ہے.

اس ليے جب آپ كا خاوند پاكستان ميں آپ كے نان و نفقہ اور دوسرے اخراجات برداشت كرنے كى استطاعت ركھتا ہے تو پھر آپ دونوں كو پاكستان ميں رہنا افضل و بہتر ہے.

رہا يہ كہ آپ كے خاوند كے پاس جانے اخراجات كون برداشت كرے تو يہ بھى خاوند كے ذمہ ہيں، بلكہ اگر اس كے ليے آسانى ہو كہ وہ آپ كو لندن سے آ كر پاكستا لے جا سكتا ہے تو پھر اسے لندن آ كر آپ كو لے جانا چاہيے تا كہ آپ بغير محرم سفر كرنے سے بچ سكيں.

خاوند كے پاس جانے كے ليے ٹكٹ كى قيمت آپ كے ليے مانع نہيں ہونى چاہيے كہ ٹكٹ كے اخراجات آپ دونوں كے اكٹھا ہونے ميں حائل ہو جائيں اور عليحدگى كى زندگى بسر كرتى پھريں.

رہا مسئلہ برطانوى حكومت كى جانب سے آپ كو جو بےروزگارى الاؤنس ملتا ہے وہ شروط پر منحصر ہوگا كہ وہ الاؤنس حاصل كرنے كے ليے انہوں نے كيا شروط مقرر كر ركھى ہيں، اگر آپ ان شروط كے ہوتے ہوئے حاصل كريں تو ٹھيك ہے وگرنہ صحيح نہيں.

رہى آپ كى اپنے پہلے خاوند سے بيٹى كے اخراجات كا مسئلہ تو آپ كے موجودہ خاوند كے ذمہ نہيں ہيں، كيونكہ وہ اس كا باپ نہيں ہے، بلكہ بچى كے سارے اخراجات اس كے والد كے ذمہ ہيں اور وہ اپنى استطاعت كے مطابق بچى پر خرچ كريگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

وسعت و خوشحالى والا اپنى وسعت كے مطابق خرچ كرے اور جو تنگ دست ہو وہ اللہ تعالى كے ديے گئے رزق سے خرچ كرے، ہر ايك كو اتنا ہى مكلف كيا جائگا جتنا اسے ديا گيا ہے، عنقريب اللہ تعالى تنگى كے بعد آسانى پيدا كر ديگا الطلاق ( 7 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب