الحمد للہ.
اگر آدمى اپنى بيوى كو كہے كہ: اگر تم تيز نہ چلى تو تمہيں طلاق، تو يہ شرط پر معلق طلاق ميں شامل ہوگى، اور جمہور كے ہاں شرط پائى جانے كے وقت طلاق ہو جائيگى، اس ليے اگر وہ تيز نہ چلے تو اسے طلاق ہو جائيگى.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں ـ اور راجح بھى يہى ہے ـ كہ معلق طلاق ميں تفصيل ہے، اگر تو خاوند اسے كسى چيز پر ابھارنا چاہتا ہے، يا پھر كسى چيز سے منع كرنا اور روكنا چاہتا ہے اور طلاق كا ارادہ نہيں تو يہ قسم ہوگى، اور اس ميں قسم توڑنے كى صورت ميں كفارہ لازم آئيگا.
اس بنا پر اگر خاوند كا ارادہ طلاق دينا نہيں تھا بلكہ وہ اسے تيز چلنے پر ابھارنا چاہتا تھا، اور حالت يہ تھى كہ وہ تيز نہيں چلى تو اس كو قسم كا كفارہ لازم آئيگا، جو كہ دس مسكينوں كو كھانا دينا، يا پھر انہيں لباس مہيا كرنا، اور اگر يہ نہ پائے تو تين ايام كے روزے ركھنا.
خاوند كو ڈرنا اور اللہ كا تقوى اختيار كرنا چاہيے اور اسے معلوم ہونا چاہيے كہ اس طرح كے امور ميں طلاق كے الفاظ استعمال كرنا بےوقوفى اور اللہ كى حدود كو پامال كرنا ہے، اور ہو سكتا ہے اس كے نہ چاہتے اور رغبت نہ كرتے ہوئے بيوى كو طلاق ہو جائے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 39941 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .