بدھ 19 جمادی اولی 1446 - 20 نومبر 2024
اردو

میکے جانے پر طلاق کی قسم اٹھا لی

39941

تاریخ اشاعت : 11-08-2004

مشاہدات : 14276

سوال

میرے خاوند نے طلاق کی قسم اٹھا لی کہ میں میکے نہ جاؤں ، اوراب وہ اس سے رجوع چاہتا ہے توکیا اس پر قسم کا کفارہ ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

پہلی بات تو یہ ہے کہ :

مسلمان کےلیے مشروع تویہ ہے کہ وہ اپنے گھریلو جھگڑوں میں طلاق کے استعمال سے اجتناب کرے ، اس لیے کہ طلاق کا انجام صحیح نہیں ہوتا ، بہت سے لوگ طلاق کے معاملہ میں سستی اورتساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں جب بھی ان کے مابین کوئي گھریلوجھگڑا ہو فورا طلاق کی قسم اٹھالیتے ہیں ، اورجب بھی دوست واحباب کے مابین جھگڑا ہوا طلاق کی قسم اٹھالی ۔۔۔ اوراسی طرح

یہ تواللہ تعالی کی کتاب سے ایک قسم کا کھیل ہے ، دیکھیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کوتین طلاقیں اکٹھی دینے والے شخص کوکتاب اللہ کے ساتھ کھیلنے والا قرار دیں تو پھراس شخص کوکیا کہيں گے جو طلاق کواپنی عادت ہی بنا لے ؟

اورجب بھی اپنی بیوی کوکسی چيز سے منع کرنا چاہا یا پھر کسی کام کرنےکوکہنا چاہاطلاق کی قسم اٹھالی ؟

امام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے محمود بن لبید سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے شخص کے بارہ میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کوتین طلاق اکٹھی دے دی تھیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے اٹھے اورفرمانے لگے :

( میرے ہوتے ہوۓ بھی کتاب اللہ سے کھیلا جارہا ہے )

حتی کہ ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اسے قتل نہ کردوں ۔ سنن نسائي حدیث نمبر ( 3401 )

حافظ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے غایۃ المرام ( 261 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

یہ بیوقوف لوگ جواپنی زبانوں پر ہرچھوٹے اوربڑے معاملےمیں طلاق طلاق کرتے پھرتے ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائي کے بھی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بھی مخالف ہيں :

( جوشخص بھی قسم اٹھانا چاہے وہ اللہ تعالی کی قسم اٹھاۓ وگرنہ خاموش ہی رہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2679 ) ۔

تومومن جب بھی قسم کا ارادہ کرے تواللہ تعالی کی قسم اٹھاۓ ، اور اس کے لیے یہ بھی لائق نہیں کہ وہ کثرت سے قسمیں ہی اٹھاتا رہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوراپنی قسموں کی حفاظت کرو المائدۃ ( 89 ) ۔

اس آیت کی جوتفسیر کی گئي ہے وہ بالجملہ یہی ہے کہ اللہ تعالی کی قسم کثرت سے نہ اٹھایا کرو ۔

اوررہا یہ مسئلہ کہ طلاق کی قسم اٹھالی جاۓ مثلا یہ کہا جاۓ : اگرتم یہ کرو تو طلاق ، اگریہ نہ کرو تو طلاق ، یا پھر یہ کہے : اگرمیں ایسا کروں تومیری بیوی کو طلاق ، اگر ایسا نہ کروں تومیری بیوی کوطلاق ، اوراس طرح کے دوسرے کلمات ، تویہ سب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ھدایت و راہنمائي اورسنت کے خلاف ہے ۔ ا ھـ دیکھیں فتاوی المراۃ المسلۃ ( 2 / 753 ) ۔

دوسری بات :

رہا مسئلہ کہ اس سے طلاق واقع ہوتی ہے کہ نہیں ، تواس میں خاوند کی نیت کا دخل ہے اگراس نے طلاق کی نیت کی اوربیوی کوقسم دی کہ وہ ایسا کام نہ کرے توبیوی کے وہ کام کرنے سے طلاق واقع ہو جاۓ گی ، اوراگر وہ اس میں طلاق کی نیت نہیں کرتا بلکہ صرف اس نے تو منع کرنے کی نیت کی تھی تو اس کا حکم قسم کا ہوگا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

راجح یہ ہے کہ جب طلاق کو قسم کی جگہ پر استعمال کیا جاۓ ، یعنی اس کا مقصد یہ ہوکہ کسی کام کے کرنے پر ابھارا جاۓ یا پھرکسی کام سے منع کرنا ، یا کسی کی تصدیق یا تکذیب کا تاکید مقصود ہوتو اس کا حکم بھی قسم جیسا ہی ہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم اللہ تعالی کی حلال کردہ اشیاء کوحرام کیوں کرتے ہو تم اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہو ، اللہ تعالی بخشنے والا اوررحم کرنے والا ہے ، اللہ تعالی نے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے التحریم ( 1 / 2 ) ۔

تواللہ تعالی نے یہاں پر تحریم کوقسم قرار دیا ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :

( اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اورہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1 ) ۔

اوریہ قسم اٹھانے والا طلاق کی نیت تو نہیں کررہا بلکہ اس نے قسم کی نیت کی یا پھر قسم کا معنی مراد لیا ہو تواگر وہ قسم کو توڑے اس کے لیے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہی کافی ہے ، اس میں راجح قول یہی ہے ۔ ا ھـ دیکھیں فتاوی المراۃ المسلمۃ ( 2 / 754 ) ۔

لجنۃ دائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذيل سوال کیا گیا :

جوشخص اپنی بیوی کو یہ کہے : میرے ساتھ اٹھو وگرنہ طلاق ، اوروہ اس کے ساتھ نہ اٹھے ، تو کیا اس سے طلاق واقع ہوجاۓ گی ؟

لجنہ کا جواب تھا :

اگرآپ نےاس سے طلاق مقصود نہیں لیا بلکہ اپنے ساتھ جانے کے لیے ابھارا ہے تواس سے طلاق واقع نہیں ہوئی ، علماء کے صحیح قول کے مطابق آپ کواس پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے ۔

اوراگر آپ نےاس سے طلاق مراد لی ہے اوراس نے آپ کی بات نہیں مانی تو اس پر ایک طلاق واقع ہوگئي ہے ۔ اھـ دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 20 / 86 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب