سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حدیث شریف

13206

تاریخ اشاعت : 23-06-2003

مشاہدات : 19258

سوال

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام حجت کیوں مانی جاتی ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےقول ، فعل ، تقریر ، اور صفت نقل کرنے کوحدیث کہا جاتا ہے ۔

حدیث یاتوقرآن مجید کے کسی حکم کی تاکید کرتی ہے جیسا کہ نماز ، روزہ ۔

یاپھر قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل جیسا کہ نماز میں رکعات کی تعداد ، اورزکاۃ کا نصاب ، اور حج کا طریقہ وغیرہ ۔

یاپھر ایسے حکم کوبیان کرتی ہے جس سے قرآن مجید نے سکوت اختیار کیا ہو مثلا عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ سے اکھٹے نکاح کرنے کی حرمت ( یعنی بیوی اوراس کی خالہ یا پھوپھی جمع کرنا حرام ہے ) ۔

اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا اورلوگوں کے لیے اسے بیان کرنے کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :

ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کربیان کردیں ، شائد کہ وہ اس پر غوروفکر کریں النحل ( 44 ) ۔

اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

کہ نہ توتمہارے ساتھی نے راہ گم کی ہے اور نہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئ بات کہتے ہیں ، وہ توصرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے النجم ( 2 – 4 ) ۔

اوراللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث اس لیے فرمایا کہ وہ لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے علاوہ ہرایک کے ساتھ کفر کی دعوت دیں ، انہيں جنت کی خوشخبری اورجہنم سے ڈارنےوالا بنایا اسی کے متعلق اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں :

اے نبی ! یقینا ہم نے ہی آّپ کو گواہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانے والا ، آگاہ کرنے والا ، بنا کربھیجا ہے ، اور اللہ تعالی کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا روشن چراغ بنا کربھیجا ہے الاحزاب ( 45 - 46 ) ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی بھلائ‏اورخیر پر بہت زیادہ حریص تھے ، جو بھی خیراور بھلائ کی بات تھی اسے اپنی امت تک پہنچایا اور جس میں شرونقصان تھا اس سے امت مسلمہ کوبچنے کا کہا ، اسی چیزکی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

تمہارے پا‎س ایک ایسے رسول آۓ ہیں جوتمہاری جنس سے ہیں جنہیں تمہیں نقصان دینے والی بات نہایت گراں گزرتی ہے ، جوتمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ، ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفقت اورمہربانی کرنے والے ہیں التوبۃ ( 128 ) ۔

ہرنبی علیہ السلام خاص کرصرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا ، اوراللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں کے لیے رحمت بنا کربھیجا ، اس کا ذکراس طرح فرمایا ہے :

اورہم نے آپ کوتمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے الانبیاء ( 107 ) ۔

توجب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ وحی کے مبلغ ہیں توان کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا واجب ہے بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تواللہ تعالی کی ہی اطاعت ہے :

جس نے بھی رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی وہ حققتا اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے النساء ( 80 ) ۔

اوراللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی نجات وکامیابی اور دنیاوآخرت کی سعادت کا راہ ہے ، اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرے گا اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی الاحزاب ( 71 ) ۔

توسب لوگوں پر اللہ تعالی اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اس لیے کہ اسی میں ان کی فلاح وکامیابی ہے :

اوراللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت تاکہ تم پررحم کیا جاۓ‌ آل عمران ( 132 ) ۔

تواب جوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ومعصیت کرے اس کا نقصان اوروبال اس پرہی ہوگا وہ اللہ تعالی کا کوئ نقصان نہیں کرسکتا ۔

فرمان باری تعالی ہے :

اورجوشخص اللہ اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررکردہ حدوں سے آگے نکلے اسے اللہ تعالی جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسے لوگوں کے لیے رسواکن عذاب ہے النساء(14) ۔

اورجب اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملہ کوئ فیصلہ کردیں تو کسی کے لیے جائزنہیں کہ وہ اسے اختیارکرے یا چھوڑ دے بلکہ اس پرایمان اورحق کی اطاعت واجب ہے ، اسی کےبارہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرما ن ہے :

اورکسی مومن مرد وعورت کو اللہ تعالی اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئ‏ اختیارباقی نہیں رہتا ، اللہ تعالی اور اس کے رسول کی جو شخص بھی نافرمانی کرے گا وہ صریحا گمراہی میں ہے الاحزاب ( 36 ) ۔

اوربندے کا ایمان اس وقت تک کامل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت نہ رکھے اوراس محبت کے لیے اطاعت لازمی ہے ۔

تو جوشخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرے اور اس کے گناہ معاف کردے تووہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے :

کہہ دیجۓ ! اگرتم اللہ تعالی کی محبت رکھتے ہوتومیری اتباع واطاعت کرو ، خود اللہ تعالی بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے آل عمران ( 31 ) ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت صرف کلمات ہی نہیں جنہیں بار بار زبان پرلاکرمحبت کا اظہار کیا جاۓ بلکہ یہ ایک عقیدہ اورمنھج ہے جس کا معنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت اور جوکچھ انہوں نے بتایا اس کی تصدیق اور جس سے روکا اوربچنے کا کہا ہے اس سے رکنا اور اللہ تعالی کی عبادت صرف مشروع طریقےسے کرنا ہے ۔

اورجب اللہ تعالی نے اس دین کی تکمیل کردی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی رسالت لوگوں تک کماحقہ پہنچا دی تو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرماتے ہوۓ انکی روح قبض کرلی ۔

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوایک صاف شفاف دین پرچھوڑا اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے تو جو بھی اس راہ اوردین سے ہٹے گا وہ ہلاکت میں ہے ، اسی کا اشارہ کرتے ہوۓ رب العزت کا فرمان ہے :

آج میں نے تمہارے لیے اپنے دین کوکامل کردیا اور تم پر اپناانعام پورا کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پرراضي ہوگیا المائدۃ ( 3 ) ۔

اللہ تعالی کے فضل وکرم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث حفظ کیں ، پھران کےبعد سلف الصالح تشریف لاۓ اور انہوں نے یہ احادیث کتب میں مدون کردیں جو کہ صحاح اور سنن اورمسانید کے نام سے پہچانی جاتی ہیں ۔

ان سب میں سے صحیح ترین صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں اور سنن اربعۃ اور مسند امام احمد اور موطا امام مالک وغیرہ میں بھی احادیث صحیحہ موجود ہيں ۔

اور اللہ تبارک وتعالی نے اپنےاس دین کومکمل فرمادیا ، اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوبھی بھلائ اورخیرمعلوم کی اسے اپنی امت تک پہنچا دیا اور جوبھی شرونقصان والی اشیاء کا ان کےپاس علم آیا اس سے اپنی امت کوبچنے کا حکم دیا ، تو اب جوبھی اللہ تعالی کے دین میں کوئ بدعت اورخرافات وغیرہ ایجاد کرتا ہے تو اس کا وہ کام مردود ہے مثلا :

مردوں سے مانگنا ، اور قبروں کا طواف کرنا ، اور جنوں سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا ، اور اسی طرح اولیاء سے مدد طلب کرنا وغیرہ یہ سب کچھ غیر شرعی اور مردود فعل ہیں جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع نہیں کیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

( جس نے بھی ہمارے اس دین میں کوئ نیا کام نکالا جواس میں سے نہیں تووہ مردود ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1718 ) ۔ .

ماخذ: شیخ محمد بن ابراھیم التویجری کی کتاب " اصول الدین الاسلامی " سے لیا گیا ۔