الحمد للہ.
جب نكاح كى شروط اور اركان پورے ہوں اور خاوند اور عورت كے ولى كى جانب سے دو عادل گواہوں كى موجودگى ميں ايجاب و قبول ہو جائے تو پھر شك و تردد اور حيرانى كا نكاح پر كوئى اثر نہيں ہوگا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
رضامندى تو دل كا معاملہ ہے جس كا اظہار تو زبان كے الفاظ يا پھر كسى فعل كے ذريعہ ہوتا ہے، اور احكام ظاہر كى بنا پر لاگو ہوتے ہيں، اس ليے كہ آپ نے عقد نكاح پورا كيا اور كوئى ايسا فعل آپ سے صادر نہيں ہوا جو آپ كى عدم رضامندى پر دلالت كرتا ہو تو يہ عقد نكاح صحيح ہے.
اور آپ كے دل ميں جو تردد كے افكار اور خيالات پائے جاتے تھے وہ معتبر نہيں ہونگے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بندوں كے ضمير اور دل ميں جو كچھ ہوتا ہے اس كے اظہار كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے الفاظ وضع كيے ہيں، لہذا جب بھى كوئ شخص كسى دوسرے سے كچھ چاہتا ہے تو وہ اپنى مراد اور دل ميں جو ہوتا ہے اسے الفاظ كا جامہ پہنا كر معلوم كرا ديتا ہے، تو اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں ارادوں اور مقاصد پر الفاظ كے واسطہ سے احكام مرتب كيے ہيں.
اگر يہى مقاصد اور ارادے دلوں ميں ہوں اور ان پر فعل يا قول دلالت نہ كرے تو صرف دلوں ميں ہونے كى وجہ سے ان پر احكام لاگو اور مرتب نہيں ہوتے، يہ علم ميں رہے كہ ان الفاظ كا متكلم شخص نہ تو ان كے معانى كا ارادہ ركھتا ہے اور نہ ہى اس كے علم كا احاطہ كيا ہے.
بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو امت كو ان كے دلوں ميں آنے والے خيالات معاف كر ديے ہيں جب تك ان پر عمل نہ كيا جائے يا پھر انہيں الفاظ كا جامہ نہ پہنايا جائے مؤاخذہ نہيں ہوتا.
لہذا جب مقصد اور قولى يا فعلى دلالت دونوں جمع ہو جائيں تو اس پر حكم مرتب ہوگا، شرعى قاعدہ اور اصول بھى يہى ہے اوراللہ سبحانہ و تعالى كے عدل و انصاف اور اس كى حكمت و رحمت كا تقاضا بھى، كيونكہ لوگوں كے دلوں كے اردے اختيار كے تحت داخل نہيں ہوتے " انتہى
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 105 ).
پھر آپ نے يہ بھى بيان كيا ہے كہ آپ كى نيت تھى كہ عقد نكاح ہو جائے پھر كوئى فيصلہ كرونگا كہ آيا اس كے ساتھ رہنا ہے يا نہيں ؟ اس كا معنى يہ ہوا كہ آپ عقد نكاح مكمل كرنے پر راضى تھے.
حاصل يہ ہوا كہ يہ عقد نكاح صحيح ہے، اور آپ كا تردد آئندہ مستقبل كے تعلقات كو جارى ركھنے پر كوئى اثرانداز نہيں ہوگا.
واللہ اعلم .