سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

يتيم بچوں كى ماں شادى كر لے تو بچوں كے مال كا وصى كون ہوگا

133560

تاریخ اشاعت : 07-02-2013

مشاہدات : 3857

سوال

تين يتيم بچے ہيں جن كا مال انكى ماں كے پاس ہے، اب ماں نے ايك شخص سے شادى كر لى ہے جو بچوں كا رشتہ دار نہيں، يہ علم ميں رہے كہ بچوں كا دادا اور نانى موجود ہے، اور چچے اور ماموں بھى ہيں؛ سوال يہ ہے كہ اس حالت ميں بچوں كے مال كا ذمہ دار اور نگران كون ہوگا ؟
پانچ برس تك تو بچوں كا مال ان كى ماں كے پاس تھا اور كوئى تجارت نہيں كى بلكہ زكاۃ كى ادائيگى سے مال ميں كمى ہى ہوئى ہے، اللہ تعالى آپ كو بركت سے نوازے اس كے متعلق كيا حكم ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اصل تو يہى ہے كہ باپ نے بچوں كے مال كا جسے وصى و نگران بنايا ہے وہى مال كى ذمہ دارى سنبھالےگا، چاہے وہ رشتہ دار ہو مثلا ماں يا چچا اور دادا وغيرہ يا غير رشتہ دار ہو.

ليكن اگر باپ نے كسى كو بچوں كے مال كا وصى و نگران نہيں بنايا تو دادا ان بچوں كے مال كا ذمہ دار اور نگران ہوگا.

اور اگر دادا نہ ہو تو پھر ولايت ماں كو حاصل ہوگى يا پھر قريب ترين عصبہ مثلا بھائى يا چچا وغيرہ كو، اور اگر ايك سے زائد عصبہ ہوں اور درجہ بھى ايك ہى ركھتے ہوں تو قاضى و حاكم جسے زيادہ بہتر سمجھے اسے اختيار كرےگا كہ وہ امانت و ديانت اور مال كى حفاظت و ديكھ بھال كى طاقت ركھتا ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بچے اور مجنون و پاگل اور بےوقوف پر سب رشتہ داروں كو ولايت حاصل ہے... اور باپ دادا حاكم كے علاوہ كو ولايت حاصل ہوگى امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور كتاب الام ميں امام احمد سے منصوص ہے، ليكن باب اور دادے اور حاكم كے ساتھ ولايت كى تخصيص بہت ہى ضعيف ہے " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 397 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بچے پر ولايت بچے كے قريب ترين كو حاصل ہوگى چاہے وہ ماں ہى كيوں نہ ہو، ليكن شرط يہ ہے كہ ماں عقل و رشد كى مالكہ ہو؛ اس ليے كہ ولايت كا مقصد تو اس چھوٹے بچے يا پھر مجنون و پاگل اور بےوقوف كى حفاظت ہے، اس ليے جب بچے كے قريبى رشتہ دار ميں حفاظت كرنے والى موجود ہو تو وہ كسى دوسرے سے بہتر ہے.

ان شاء اللہ تعالى يہى حق ہے، اس بنا پر دادا اور باپ اپنى اولاد كے ولى ہونگے، اور بھائى اپنے چھوٹے بھائى كا ولى ہوگا، اور جب عصبہ نہ ہو تو پھر ماں اپنے بيٹے كى ذمہ دار ہوگى، جى ہاں اگر بالفرض بچے كے رشتہ داروں ميں محبت و شفقت اور نرمى و مہربانى نہيں تو اس صورت ميں ہم قاضى اور حكمران سے رجوع كرينگے كہ كون ولى ہونے ك لائق ہے. " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 9 / 86 ).

دوم:

اوپر كى سطور ميں جو تفصيل بيان ہوئى ہے كى بنا پر ان يتيم بچوں كے مال پر ان كے دادے كو ولايت حاصل ہے، اور اگر دادا عاجز ہو يا پھر يتيم بچوں كے اموال كى ديكھ بھال نہيں كر سكتا تو پھر ولايت ماں كو مل جائيگى.

ماں كى شادى كا اپنے بچوں كے مال پر ولايت كوئى اثر نہيں ہوگا، كيونكہ بچے كى پرورش اور مالي مسؤليت ميں فرق ہے، كيونكہ حق پرورش ماں كى شادى كى بنا پر ساقط ہو جاتا ہے، ليكن مالى مسؤليت شادى سے ساقط نہيں ہوتى.

سوم:

يتيم بچے كے مال كا ولى و نگران دادا ہو يا ماں يا كوئى اور اسے چاہيے كہ مال كو تجارت ميں لگائے اور كوشش كرے كہ وہ مال كو وہاں صرف كريں جہاں بچے كى مصلحت ہو اور بچوں كو فائدہ ہوتا ہو.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم يتيم كے مال كے قريب مت جاؤ مگر احس طريقہ كے ساتھ .

يعنى يتميم كا مال وہاں صرف كرو جس ميں بچے كى مصلحت پائى جائے اور اسے فائدہ ہو اور مال بڑھے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يتيم كے مال كے نگران اور ولى كو چاہيے كہ وہ اس مال كو مضاربت ميں لگائے، اور ايسے شخص كو دے جو اس كے ساتھ مضاربت والى تجارت كرے، اور اس كے ليے نفع ميں حصہ مقرر كرے، چاہے وصى ہو يا حاكم يا حاكم كا امين و خزانچى يا باپ، اسے ويسے چھوڑنے سے بہتر ہے.

اس رائے كو اختيار كرنے والوں ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما اور نخعى حسن بن صالح اور امام مالك امام شافعى اور ابو ثور اور اصحاب الرائے شامل ہيں، اور عمر بن خطاب، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہم اور ضحاك سے اس مال كے ساتھ تجارت كرنا ثابت ہے.

ہمارے علم كے مطابق تو كسى نے بھى اسے ناپسند اور مكروہ نہيں سمجھا، صرف حسن سے ايسى روايت ملتى ہے، اور ہو سكتا ہے انہوں نے خطرہ كے پيش نظر اس سے اجتناب كرنا سمجھا ہے، اور اس ليے كہ اسے محفوظ ركھنے ميں زيادہ بہترى ہے.

جمہور كى رائے زيادہ بہتر ہے كيونكہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو كوئى بھى يتيم كا ولى بنے اور يتيم كا مال ہو تو وہ اس مال كى تجارت كرے اور اسے ويسے ہى نہ چھوڑ دے كہ صدقہ و زكاۃ اسے كھا جائے "

اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى مروى ہے جو كہ مرفوع سے زيادہ صحيح ہے.

اور اس ليے بھى كہ يہ اس كے ليے زيادہ بہتر ہوگا تا كہ اس يتيم بچے كا خرچ تجارت كے نفع ميں سے ہو، جس طرح تاجر لوگ اپنے اموال اور دوسروں كے اموال كے ساتھ كرتے ہيں، ليكن وہ اسى تجارت ميں مال لگائے جہاں نقصان كا خدشہ نہ ہو، اور كسى دھوكہ باز كو تجارت كے ليے مال مت دے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 6 / 338 ـ 339 ).

اور اگر ماں يا يتيم بچوں كے مال كا نگران فائدہ مند امور ميں مال لگانے سے عاجز ہو تو پھر ولايت بعد والے شخص كى طرف منتقل ہو جائيگى جو اس ذمہ دارى كو نبھانے كى اہل ركھتا ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يتيم كے مال كا ولى اور نگران اسے ہى بنايا جائيگا جو اس ذمہ دارى كو نبھانے كى اہليت ركھتا ہو اور امانتدار ہو، واجب ہے كہ اگر ولى ميں يہ اوصاف نہ ہوں تو پھر اس سے بہتر شخص كو ولى بنايا جائيگا " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 30 / 44 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب