سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا تنگ دست يا قرض كى ادائيگى ميں ٹال مٹول كرنے والے قرض پر زكاۃ واجب ہو گى ؟

1346

تاریخ اشاعت : 05-11-2005

مشاہدات : 5688

سوال

تنگ دست كے ذمہ قرض ہو سكتا ہے وہ كئى برس تك اس كے پاس رہے اس كى زكاۃ كا حكم كيا ہے؟
اور اس قرض كى زكاۃ ميں كيا حكم ہے جو كسى تنگ دست پر تو نہيں ليكن وہ ادائيگى ميں ٹال مٹول سے كام لے رہا ہو؟
اور اس شخص كے ذمہ قرض كى زكاۃ كا حكم كيا ہے جو ادائيگى كا عزم ركھتا ہو اور يہ ادائيگى سال كے بعد ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر مقروض شخص تنگ دست ہو يا وہ تنگ دست نہ ہو ليكن قرض كى ادائيگى ميں ٹال مٹول سے كام لينے والا ہو، اور قرض خواہ اس سے اپنا قرض واپس نہ لے سكتا ہو، يا تو اس كے پاس اتنا ثبوت نہيں كہ وہ عدالت ميں جا كر قرض واپس لے لے، يا اس كے پاس ثبوت تو ہے ليكن وہ ايسى عدالت يا حكمران نہيں پاتا جو اس كا حق دلانے ميں اس كى معاونت كرتا ہو، جيسا كہ بعض ممالك ميں ہے جہاں حقوق كى كوئى مدد و نصرت نہيں ہوتى.

تو اس قرض خواہ پر اس وقت تك زكاۃ واجب نہيں ہو گى جب تك كہ وہ قرض وصول نہ كر لے اور اس پر ايك سال نہ گزر جائے( يعنى اس كے پاس مال كو اسلامى سال پورا ہو جائے)

ليكن اگر مقروض شخص تنگ دست نہ ہو اور اس سے قرض وصول كرنا ممكن ہو تو اس ميں ہر سال زكاۃ واجب ہے، چاہے وہ قرض بذاتہ نصاب كو پہنچتا ہو يا پھر اس كے پاس دوسرى رقم كے ساتھ ملانے كے بعد نصاب پورا ہوتا ہو.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 191 )