الحمد للہ.
اگر مقروض شخص تنگ دست ہو يا وہ تنگ دست نہ ہو ليكن قرض كى ادائيگى ميں ٹال مٹول سے كام لينے والا ہو، اور قرض خواہ اس سے اپنا قرض واپس نہ لے سكتا ہو، يا تو اس كے پاس اتنا ثبوت نہيں كہ وہ عدالت ميں جا كر قرض واپس لے لے، يا اس كے پاس ثبوت تو ہے ليكن وہ ايسى عدالت يا حكمران نہيں پاتا جو اس كا حق دلانے ميں اس كى معاونت كرتا ہو، جيسا كہ بعض ممالك ميں ہے جہاں حقوق كى كوئى مدد و نصرت نہيں ہوتى.
تو اس قرض خواہ پر اس وقت تك زكاۃ واجب نہيں ہو گى جب تك كہ وہ قرض وصول نہ كر لے اور اس پر ايك سال نہ گزر جائے( يعنى اس كے پاس مال كو اسلامى سال پورا ہو جائے)
ليكن اگر مقروض شخص تنگ دست نہ ہو اور اس سے قرض وصول كرنا ممكن ہو تو اس ميں ہر سال زكاۃ واجب ہے، چاہے وہ قرض بذاتہ نصاب كو پہنچتا ہو يا پھر اس كے پاس دوسرى رقم كے ساتھ ملانے كے بعد نصاب پورا ہوتا ہو.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے .