الحمد للہ.
دعا کیلیے متعدد شرائط ہیں:
1- صرف اللہ تعالی سے دعا مانگے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرمایا تھا: (تم جب بھی مانگو تو اللہ تعالی سے مانگو اور جب بھی مدد چاہو تو صرف اللہ تعالی سے مدد چاہو) ترمذی (2516)نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے۔
حقیقت میں یہ حدیث اس آیت کی ترجمان ہے:
( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُو مَعَ اللَّهِ أَحَداً )
ترجمہ: اور بے شک مساجد اللہ کیلیے ہیں اس لیے اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔[الجن:18]
یہ شرط بہت ہی عظیم اور اہم ترین شرط ہے، اس کے بغیر دعا قبول ہی نہیں ہوتی اور اس کے بغیر کوئی عمل بھی اللہ تعالی کے ہاں پیش نہیں کیا جاتا، کچھ لوگ ہیں جو مردوں سے مانگتے ہیں، انہیں اپنے اور اللہ تعالی کے درمیان وسیلہ بناتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نیک لوگ انہیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں گے، انہیں اللہ تعالی کے سامنے سفارشی بناتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالی کے ہاں ان کا کوئی مقام نہیں ، اس لیے نیک لوگوں کو اللہ تعالی کے ہاں وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ تعالی کی بجائے انہی سے دعائیں کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ )
ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہی ہوں، جب بھی مجھے کوئی دعا کرنے والا پکارتا ہے اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔[البقرة:186]
2- شرعی طور پر جائز وسیلوں میں سے کوئی وسیلہ اپنائے۔
3- جلد بازی سے پرہیز کرے؛ کیونکہ جلد بازی دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتی ہے، جیسے کہ ایک حدیث میں ہے کہ: (تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک جلد بازی کرتے ہوئے یہ نہ کہے: دعا تو بہت کی ہے لیکن قبول ہی نہیں ہوتی) بخاری: (6340) مسلم: (2735)
اسی طرح صحیح مسلم : (2736)میں ہے کہ : (بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہیں مانگتا اور جلد بازی نہیں مچاتا) کہا گیا: اللہ کے رسول! "جلد بازی مچانے سے کیا مراد ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ یہ کہنے لگ جائے کہ: میں نے بہت دعا کی انتہائی زیادہ دعائیں مانگیں، لیکن اللہ میری دعا قبول نہیں فرماتا، وہ یہ کہہ کر تھک ہار جاتا ہے اور دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے)
4- دعا میں کوئی گناہ یا قطع رحمی والی بات نہ ہو، جیسے کہ پہلے حدیث میں گزرا ہے کہ: (بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہیں مانگتا)
5- اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے اپنے بارے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں) بخاری: (7405) مسلم: (4675) اور اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: (اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوئے تمہیں قبولیت پر پورا یقین ہونا چاہیے) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح الجامع : (245) میں حسن قرار دیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی سے خیر کی امید رکھنے والے پر اللہ تعالی خیر و برکات کے دریا بہا دیتا ہے، اللہ تعالی اس پر اپنا فضل فرماتا ہے، اللہ تعالی کی طرف سے اس پر جود و سخا برسا دی جاتی ہے۔
6- حضورِ دل سے دعا مانگے، دل میں اللہ تعالی کی عظمت اجاگر ہونی چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جان لو! بیشک اللہ تعالی کسی بھی غافل دل سے کوئی دعا قبول نہیں فرماتا) ترمذی: (3479) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح الجامع: (245) میں حسن قرار دیا ہے۔
7- کھانا پینا حلال ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
( إنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ )
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی متقی لوگوں سے ہی قبول کرتا ہے۔[المائدة:27]
دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے شخص کی دعا کی قبولیت کو ناممکن قرار دیا جس کا کھانا، پینا، اور پہننا حرام کا ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ لمبے سفر میں پراگندہ بال اور دھول میں اٹا ہوا آسمان کی جانب ہاتھ پھیلا کے کہے: یا رب! یا رب! ، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے، لباس حرام سے بنا اور اس کی نشو و نما بھی حرام پر ہوئی؛ تو اس کی دعا کیسے قبول ہو!) مسلم: (1015)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: (حرام کھانے سے دعا میں قوت ختم ہو جاتی ہے اور دعا میں کمزوری آ جاتی ہے)
8- دعا میں حدود سے تجاوز مت ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کو دعا میں حد سے تجاوز پسند نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ )
ترجمہ: تم اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور چھپ کر پکارو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔[الأعراف:55]
اس بارے میں مزید تفصیلات کیلیے سوال نمبر: (41017) کا جواب ملاحظہ کریں۔
9- دعا میں مشغول ہو کر کسی ضروری کام کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتے، مثلاً: کوئی فوری اور ضروری کا م جیسے والد کی خدمت اس حجت سے نہ چھوڑے کہ دعا میں مشغول ہوں، اس کے متعلق عبادت گزار جریج کے واقعے میں واضح اشارہ موجود ہے کہ جب انہوں نے اپنی والدہ کی آواز سن کر اس کا جواب نہ دیا اور اپنی نماز میں مشغول رہے تو ان کی والدہ نے ان کے خلاف بد دعا کر دی نتیجتا اللہ تعالی نے انہیں آزمائش میں ڈال دیا۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کہتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جریج کیلیے صحیح عمل یہ تھا کہ اپنی والدہ کی بات کا جواب دیتے؛ کیونکہ وہ نفل نماز ادا کر رہے تھے اور اس نفل نماز کو جاری رکھنا بھی نفل ہی تھا واجب نہیں تھا، جبکہ والدہ کی بات کا جواب دینا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا واجب ہے ان کی نافرمانی حرام ہے۔۔۔ "
"شرح صحیح مسلم" از نووی: (16/82)
مزید کیلیے آپ محمد بن ابراہیم حمد کی عربی کتاب: "الدعاء" ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم .