سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

امانت كے احكام

13717

تاریخ اشاعت : 24-09-2005

مشاہدات : 6808

سوال

كيا ودائع ( يعنى امانتوں ) كے بارہ ميں كچھ احكام ذكر كريں گے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ايداع: بغير كسى معاوضہ كے حفاظت كرنے ميں وكيل بننا ايداع كہلاتا ہے.

الوديعہ كى لغوى تعريف:

لغت ميں ودع الشيئ سے ہے، يعنى جب كوئى چيز چھوڑ دے، اسے الوديعہ اس ليے كہتے ہيں كيونكہ وہ چيز ركھنے والے كے پاس چھوڑى گئى ہے.

الوديعہ كى شرعى تعريف:

بغير كسى عوض كے مال كى حفاظت كرنے والے كے پاس ركھا گيا مال الوديعہ كہلاتا ہے.

ايداع ( امانت ركھنے ) كے صحيح ہونے كى شرطيں وہى شرطيں ہيں جو كسى كو وكيل بنانے ميں معتبر ہوتى ہيں، يعنى وہ عاقل اور بالغ اور سمجھدار ہو، كيونكہ ايداع يعنى امانت ركھنا حفاظت كے ليے كسى كو وكيل بنانا ہے.

اس شخص كے ليے امانت ركھنى مستحب ہے جسے يہ علم ہو كہ وہ ثقہ اور امانت كى حفاظت كرنے پر قادر ہے؛ كيونكہ اس ميں بہت اجرعظيم اور ثواب جزيل پايا جاتا ہے؛ اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب بندہ اپنے بھائى كى مدد ميں ہو تو اللہ تعالى بندے كى مدد ميں ہوتا ہے"

اور اس ليے بھى كہ لوگوں كو اس كى ضرورت اور حاجت ہے، ليكن جس شخص كو اپنے متعلق علم ہو كہ وہ اس كى حفاظت نہيں كر سكتا تو اس كے ليے امانت ركھنا قبول كرنا مكروہ اور ناپسند كيا جاتا ہے.

وديعت اور امانت كے احكام ميں شامل ہے كہ:

جس شخص كے پاس ركھى گئى ہے اس كى كسى كمى يا كوتاہى كے بغير امانت ضائع ہو جائے تو وہ اس كا ضامن نہيں؛ جيسا كہ اس كے مال كے ساتھ ہى وہ بھى ضائع ہو گئى؛ كيونكہ وہ امانت ہے؛ اور امين شخص اگر زيادتى نہ كرے تو وہ ضامن نہيں ہوتا.

ايك ضعيف حديث ميں آيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كے پاس امانت ركھى گئى؛ تو وہ اس كا ضامن نہيں"

اسے ابن ماجۃ رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے.

اور دار قطنى نے مندرجہ ذيل الفاظ كے ساتھ روايت كى ہے:

" خائن كے علاوہ جس كے پاس امانت ركھى جائے اس پر ضمان نہيں"

المغل خائن كو كہتے ہيں.

اور ايك روايت ميں ہے:

" جس كے پاس امانت ركھى جائے اس پر ضمان نہيں"

اور اس ليے كہ جس كے پاس امانت ركھى گئى ہے اس نے بلامعاوضہ حفاظت كى ہے.

اور اگر وہ ضامن بنے تو لوگ امانت قبول كرنے سے رك جائيں، اور اپنے پاس امانت ركھيں ہى نہ، تو اس كے نتيجہ ميں لوگوں كو نقصان اور ضرر ہو گا، اور مصلحت جاتى اور معطل ہو كر رہ جائے گى.

ليكن جو امانت ميں زيادتى يا اس كى حفاظت ميں كمى كوتاہى كرے؛ تو ضائع ہونے كى صورت ميں وہ اس كا ذمہ دار ہے اور اسے ضمان دينا ہوگى، كيونكہ اس نے دوسرے كا مال تلف كيا ہے.

اور وديعت كے احكام ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

جس كے پاس امانت ركھى جائے اس واجب اور ضرورى ہےكہ اس كى حفاظت اس طرح كرے جس طرح اپنے مال كى حفاظت كرتا ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى نے امانتوں كى ادائيگى كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

بلا شبہ اللہ تعالى تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتيں ان كے مالكوں كو ادا كرو.

اور امانت كى ادائيگى اسى وقت ممكن ہو سكتى ہے جب اس كى حفاظت كى جائے، اور اس ليے بھى كہ جب امانت ركھنے والے نے امانت ركھنا قبول كى تو اس كى حفاظت كا بھى التزام كيا، لھذا جس كا اس نے التزام كيا وہ اس پر لازم كى جائے گى.

اور اگر وديعت و امانت كوئى جانور ہے: تو امانت ركھنے والے پر اس كا چارہ وغيرہ لازم ہے، اگر اس نے مالك كے حكم كے بغير اسے چارہ كھلانا بند كر ديا اور وہ جانور ضائع ہو گيا، تو وہ اس كا ضامن ہو گا؛ كيونكہ وہ جانور كو چارہ كھلانے پر مامور تھا، اور اس كا ضامن ہونے كے ساتھ ساتھ يہ بھى ہے كہ اس نے جانور كو چارہ نہ كھلانا اور پانى نہ پلانا حتى كہ وہ جانور مر گيا تو اس طرح اس گناہ كا بھى ارتكاب كيا ہے؛ كيونكہ اس پر اسے چارہ كھلانا اور پانى پلانا واجب تھا، كيونكہ يہ اللہ تعالى كا حق ہے، اور اس ليے كہ اس كى حرمت ہے.

اور امانت ركھنے والے كے ليے جائز ہے كہ وہ امانت اس كے پاس ركھے جو عادتا اس كے مال كى حفاظت كرتا ہو، مثلا اپنى بيوى، يا غلام، يا خزانچى، اور اس كا خادم، اور اگر ان ميں سے كسى ايك كے پاس وہ امانت بغير كسى زيادتى اور كمى و كوتاہى كے ضائع ہو جائے تو اس پر ضمان نہيں، كيونكہ اسے حق تھا كہ وہ اس كى خود حفاظت كرے يا پھر اپنے قائم كوحفاظت كے ليے دے.

اور اسى طرح اگر وہ امانت اس كے پاس ركھے جو مالك كے مال كى حفاظت كرتا ہے؛ تو يہ عادت ہونے كى بنا پر اس سے برى ہے .

ماخذ: الملخص الفقھى تاليف: شيخ صالح آل فوزان صفحہ نمبر ( 137 )