سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

دعا سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

13769

تاریخ اشاعت : 27-08-2024

مشاہدات : 6291

سوال

 میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں کیا کروں؟ مجھے کسی نے کہا ہے کہ جب تم دعا کرو تو پھر آپ کے ذمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے سات مرتبہ سجدہ کرنا لازمی ہے، لیکن مجھے اس کا طریقہ کار معلوم نہیں ہے یہ کیسے ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یہ بات دینی مسلمہ امور میں شامل ہے کہ عبادت میں سے کوئی بھی چیز غیر اللہ کیلیے بجا لانا جائز نہیں ہے ؛ چاہے وہ مقرب فرشتہ  یا نبی ہی کیوں نہ ہو؛ لہذا اگر کوئی شخص غیر اللہ کیلیے عبادت بجا لاتا ہے تو وہ مشرک اور کافر ہے، اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
ترجمہ: بیشک مساجد اللہ تعالی کیلیے ہیں ؛ لہذا اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔[الجن: 18]

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی اپنے بندوں کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی عبادت گاہوں میں صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔۔۔" انتہی

جبکہ سوال میں مذکور عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو ہے، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع کرتے ہوئے فرمایا: (میری شان ایسے مت چڑھاؤ جیسے کہ عیسائیوں نے ابن مریم کی شان کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا؛ میں تو بس اللہ کا بندہ  ہوں اس لیے مجھے صرف اللہ کا بندہ اور رسول ہی سمجھو) بخاری:کتاب احادیث الانبیاء: (3189)

یقینی بات ہے کہ سجدہ کرنا عبادت ہے ؛ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاری کے نقش قدم پر چلنے سے مرض الوفاۃ میں بھی منع فرمایا اور کہا: (اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا، آپ یہ بات ان کے عمل سے خبردار کرنے کیلیے فرما رہے تھے) بخاری: کتاب الصلاۃ: (417)

اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً کھڑے ہونے سے منع فرماتے  تھے جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: (اگر تم  ایسا [کھڑا ہونے کا عمل]کرتے  تو تم فارسی اور رومیوں جیسا عمل کر گزرتے جو کہ اپنے بیٹھے ہوئے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں) مسلم: کتاب الصلاۃ: (624)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ : (تم ایسے مت کرو [یعنی: تعظیماً کھڑے ہونے کا عمل]جیسے کہ اہل فارس اپنے بڑوں کے متعلق کرتے ہیں) یہ روایت صحیح الجامع میں (7380) میں ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض کھڑے ہونے کے متعلق ایسا فرما رہے ہیں تو سجدہ کے متعلق آپ کا حکم کیا ہوگا؟!

سوال میں مذکور صورت میں سجدہ کرنا اللہ تعالی کے لیے مختص عبادات میں شامل ہے، نیز اللہ تعالی نے صرف اپنے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
ترجمہ: اور اللہ تعالی کیلیے ہی سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے ، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔[فصلت: 37]

اسی طرح فرمایا:
فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا
ترجمہ: اللہ تعالی کیلیے ہی سجدہ کرو اور اسی کی عبادت بجا لاؤ[النجم: 62]

مزید تفصیلات کیلیے سوال نمبر: (229780) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

دعا کیلیے شرعی عمل یہ ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں، بلکہ دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خصوصی طور پر درود بھیجنا چاہیے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دعا کی ابتدا اللہ تعالی کی حمد و ثنا سے کی جائے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے، اسی طرح دعا کے آخر میں بھی حمد و ثنا اور درود پڑھا جائے، جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی [پھر اسی دوران دعا کرتے ہوئے]کہا: "یا اللہ! مجھے معاف کر دے، اور  مجھ پر رحم فرما" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے نمازی! تم نے جلد بازی سے کام لیا، جب تم نماز میں [تشہد کیلئے ]بیٹھو، تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کرو، پھر مجھ پر درود پڑھو، اور پھر اللہ سے مانگو) راوی کہتے ہیں: "اس کے بعد  ایک اور شخص نے نماز پڑھی، تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (اے نمازی! اب دعا مانگ لو، تمہاری دعا قبول ہوگی)"
ترمذی: کتاب الدعوات: (3398) ابو داود: (1481)، اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود" (2756) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ  صلی اللہ علیہ  وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا مانگتے ہوئے دیکھا،  اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے جلدی کی ہے پھر اسے بلایا اور اسے یا کسی اور کو کہا کہ اگر تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور اس کے بعد جو چاہے دعا کرے" ابو عیسی ترمذی کہتے ہیں کہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ترمذی: (3399) اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود (2767)میں  صحیح قرار دیا ہے۔

ایک اور جگہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: "میں نماز پڑھ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر و عمر تھے جب میں نماز میں بیٹھا تو اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا اس کے بعد اپنے لیے دعا کرنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مانگو گے عطا کیا جائے گا، مانگو عطا کیا جائے گا" ترمذی، کتاب الجمعہ: (541)، البانی  نے اسے صحیح ترمذی (486) میں حسن صحیح قرار دیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کیسے پڑھا جائے ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے  کیلیے الفاظ یہ ہیں:
" اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ "
ترجمہ: یا اللہ! محمد اور آل محمد پر رحمتیں نازل فرما جیسے کہ تو نے آل ابراہیم پر رحمتیں نازل کیں، بیشک تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، یا اللہ!  محمد اور آل محمد پر برکتیں نازل فرما جیسے کہ تو نے آل ابراہیم پر برکتیں نازل کیں، بیشک تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔
بخاری، کتاب احادیث الانبیاء: (3119)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا یہی طریقہ ہے، جبکہ سوال میں مذکور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے سجدہ کرنا حرام ہے ، بلکہ شرک اکبر ہے؛ کیونکہ اس صورت میں یہ سجدہ اللہ کیلیے نہیں ہو گا ، چنانچہ مسلمان کیلیے ضروری یہی ہے کہ اپنے دینی امور کا طریقہ کار کتاب و سنت اور معتمد اہل علم سے سیکھے ، نیز اگر کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو پھر  اہل علم کی طرف رجوع کرے مبادا شرک میں مبتلا نہ ہو جائے، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔

آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ  شرک و بدعات کی طرف راغب کرنے والے تمام افراد سے  بچیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ سب کو شرک و بدعات سے محفوظ فرمائے۔

واللہ اعلم، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد پر رحمتیں نازل فرمائے۔.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب