جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

احترام اور سلام کہتے ہوئے رکوع یا سجدہ کرنا شرک ہے؟

229780

تاریخ اشاعت : 29-09-2024

مشاہدات : 13404

سوال

میں نے ایک ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ اگر غیر اللہ کو احترام اور سلام کہتے ہوئے سجدہ کیا جائے تو یہ کفر اور شرک ہے؛ کیونکہ سجدہ کرنا عبادت ہے اور عبادت غیر اللہ کیلیے نہیں کی جا سکتی، تو کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب کا خلاصہ

مندرجہ بالا تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ: غیر اللہ کو سجدہ  کفریہ عمل اسی وقت ہو
گا جب بطور عبادت کیا جائے، چنانچہ اگر کوئی تعظیمی سجدہ کرتا ہے تو یہ کبیرہ
گناہوں میں شامل ہے، شرک تک نہیں پہنچتا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سجدے اور رکوع کی طرح جھکنے کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:  عبادت کیلیے سجدہ:
اس قسم کا سجدہ عاجزی ، انکساری  اور عبادت کیلیے ہوتا ہے اور یہ صرف اللہ کیلیے ہو گا، چنانچہ عبادت کیلیے سجدہ غیر اللہ کو کرنے والا شرک اکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

دوسری قسم: احترام اور سلام  پیش کرتے ہوئے سجدہ کرنا:
اس قسم کا سجدہ کسی کے احترام ، عزت افزائی اور سلام کہتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

سجدے کی یہ قسم  اسلام سے قبل کچھ شریعتوں میں جائز تھی، تاہم اسلام نے اسے حرام قرار دے دیا، لہذا اگر کسی نے کسی مخلوق کو تعظیمی سجدہ کیا تو اس نے حرام  کام کا ارتکاب کیا ہے، تاہم وہ کفر یا شرک میں مبتلا نہیں ہوا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سجدے کی دو قسمیں ہیں: [پہلی قسم]خالص عبادت کیلیے  [دوسری قسم] تعظیمی سجدہ، پہلی قسم کا سجدہ صرف اللہ تعالی کیلیے ہی ہو سکتا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (4/361)

اسی طرح انہوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ:
"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ غیر اللہ کیلیے سجدہ کرنا حرام ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى" (4/358)

ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
"احادیث کی نصوص اور اجماع امت دونوں ہی ہماری شریعت کی رو سے غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے،  چاہے وہ تعظیمی ہو یا عبادت کیلیے ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو شام سے واپسی پر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعظیمی سجدہ کرنے سے منع فرمایا" انتہی
"جامع المسائل" (1/25)

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تعظیمی سجدہ کرنا ممنوع ہے؛ لیکن پھر بھی کچھ جاہل صوفیوں نے دورانِ سماع اسے اپنی عادت بنا لیا ہے، عام طور پر اپنے مشائخ کے پاس جاکر اور ان کیلیے دعائے مغفرت کرتے وقت  ایسا ہی کرتے ہیں، چنانچہ جب صوفی حضرات-ان کے مطابق- وجد میں آتے ہیں تو جہالت کی بنا پر قدموں میں آ کر سجدہ ریز ہو جاتا ہے ؛ چاہے قبلہ سمت ہو یا نہ ہو ، یہ اس کے جاہل ہونے کی وجہ سے ہے، ان کی کوششیں رائیگاں اور اعمال ضائع ہو چکے ہیں"ا نتہی
"تفسیر القرطبی" (1/294)

دوم:

یہ کہنا کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا مطلق طور پر  شرک ہے؛ کیونکہ سجدہ عبادت ہے اور عبادت غیر اللہ کیلیے نہیں کی جا سکتی، یہ محل نظر ہے، اس کے کمزور ہونے کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1- اللہ تعالی نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کیلیے سجدہ کرنے کا حکم دیا، اگر محض سجدہ بھی شرک ہوتا تو  اللہ تعالی انہیں اس کا حکم کبھی نہ دیتا۔
چنانچہ امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ [فرشتے آدم کیلیے سجدہ ریز ہو گئے] یہ احترام اور تعظیمی سجدہ ہے، عبادت کیلیے نہیں ہے" انتہی
"جامع البيان" (14/65)

اسی طرح ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدم علیہ السلام کو کیا جانےو الا سجدہ عبادت کیلیے  نہیں تھا" انتہی
"أحكام القرآن" (1/27)

اسی طرح ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فرشتوں کا اللہ تعالی کیلیے سجدہ عبادت کیلیے تھا جبکہ آدم علیہ السلام کیلیے احترام اور تعظیم کیلیے تھا" انتہی
"الفصل في الملل والأهواء والنحل" (2/129)

2- اللہ تعالی نے ہمیں بتلایا ہے کہ یعقوب اور ان کی اولاد نے یوسف علیہ السلام کیلیے سجدہ کیا، اگر یہ شرک ہوتا تو اللہ تعالی کے انبیائے کرام یہ سجدہ مت کرتے۔

 یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سجدہ کرنا سابقہ شریعتوں میں جائز تھا؛ کیونکہ شرک کی اجازت کسی بھی شریعت میں نہیں دی گئی، اس لیے کہ عقیدہ توحید کی تعلیمات اور احکامات سیدنا آدم علیہ السلام سے لیکر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک  تبدیل نہیں ہوئیں۔

اس بارے میں طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن زید رحمہ اللہ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا [وہ سب [یوسف ] کیلیے سجدہ ریز ہو گئے] یہ سجدہ یوسف علیہ السلام کی تعظیم کیلیے تھاجیسے کہ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو تعظیمی سجدہ کیا تھا، عبادت کیلیے نہیں ۔
اور جن مفسرین نےاس سجدے کو یہ قرار دیا ہے کہ یہ ان کے باہمی ملنے کا طریقہ تھا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان کے ہاں اخلاقیات میں شامل تھا ، اس سجدے کو بطور عبادت نہیں کیا جاتا تھا، نیز اس بات کی تائید کہ لوگوں میں زمانۂ قدیم سے تعظیمی سجدہ رائج تھا اور تعظیمی سجدہ بطورِ عبادت نہیں کیا جاتا تھا اعشی بنی ثعلبہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:
فَلَمَّا أَتَانَا بُعَيْدَ الْكَرَى ** سَجَدْنَا لَهُ وَرَفَعْنَا الْعَمَارَا
[جب ہمارے پاس نیند سے اٹھ کر بھی آئے تو ہم اس کیلیے سجدہ ریز ہوں گے اور پھولوں کا گلدستہ پیش کریں گے]" انتہی
"جامع البيان" (13/356)

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تعظیمی سجدہ ان کی شریعت میں جائز تھا؛ چنانچہ جب کسی بڑی شخصیت کو سلام کرتے تو اس کیلیے سجدے کرتے تھے، تعظیمی سجدہ آدم علیہ السلام سے لیکر عیسی علیہ السلام تک جائز تھا، لیکن ہماری شریعت میں اسے حرام قرار دے کر سجدہ صرف اللہ تعالی کیلیے مخصوص کر دیا گیا"انتہی
"تفسیر القرآن العظیم" (4/412)

قاسمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ یقینی بات ہے کہ یہ عبادت کیلیے سجدہ نہیں تھا، بلکہ یہ صرف اور صرف تعظیمی سجدہ تھا" انتہی
"محاسن التأويل" (6/250)

3- معاذ رضی اللہ عنہ نے شام سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، اگر یہ شرک ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے لازمی بیان کرتے، لیکن زیادہ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی کہا کہ آپ کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "جس وقت معاذ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (معاذ یہ کیا کر رہے ہو؟) تو انہوں نے کہا: میں نے شام میں دیکھا تھا کہ شامی لوگ اپنے پادریوں اور مذہبی شخصیات کو سجدے کرتے ہیں، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ ہم ایسے آپ کیلیے بھی کریں گے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم ایسا مت کرو، اگر میں کسی کو غیر اللہ کیلیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو  میں بیوی کو خاوند کیلیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! عورت اپنے پروردگار کا اس وقت تک حق ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے خاوند کا حق ادا نہ کرے)ابن ماجہ: (1853) اسے البانی نے حسن کہا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ: "اگر میں کسی کی عبادت کرنے کا حکم دینا چاہتا تو۔۔۔""انتہی
"مجموع الفتاوى" (4/360)

امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ کو یہ بات قابل توجہ محسوس نہیں ہوتی کہ صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آ کر کہہ دیا کہ: "کیا ہم آپ کو سجدہ کریں؟"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) اگر صحابہ کرام کو سجدہ کرنے کی اجازت مل بھی جاتی تو یہ تعظیم و توقیر کا سجدہ ہوتا نہ کہ عبادت کیلیے ، بالکل ایسے ہی جیسے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں سجدہ کیا تھا۔
یہی معاملہ مسلمان کی جانب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو تعظیمی سجدہ کرنے کے بارے میں ہو گا کہ اس سے انسان کافر نہیں ہوگا، بلکہ گناہ گار ہو گا، تعظیمی سجدہ کرنے والے شخص کو بتلایا جائے گا کہ یہ منع ہے، اسی طرح قبر کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرنے کا حکم ہے" انتہی
"معجم الشيوخ الكبير" (1/73)

4- چند احادیث میں کچھ جانوروں کی جانب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے کا ذکر ملتا ہے؛ چنانچہ اگر محض[تعظیمی] سجدہ شرک ہوتا  یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ ہوتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ جانور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا کرتے تھے، اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ جانور اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے؛ تو یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ کسی چیز کو سجدہ کرنے سے اس کی عبادت لازم آتی ہے!؟" انتہی"
"مجموع الفتاوى" (4/360)

5- "سجدہ" کرنے کا عمل شرعی احکامات سے تعلق رکھتا ہے جس کا حکم ایک شریعت میں دوسری شریعت سے مختلف ہو سکتا ہے، لیکن عقیدہ توحید سے متعلقہ امور کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے جو کہ ہمیشہ  یکساں ہیں ان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دلی طور پر کسی کے سامنے عاجزی و انکساری  سمیت کسی کو پروردگار سمجھنا یا اس کی بندگی کا اعتراف کرنا  یہ مطلق طور پر صرف اللہ تعالی کیلیے ہی ممکن ہے، جبکہ کسی اور کے بارے میں ان چیزوں کا پایا جانا نا ممکن اور باطل ہے۔

جبکہ سجدہ شرعی احکامات سے تعلق رکھتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اللہ کیلیے سجدہ ریز ہوں اور اگر اللہ تعالی ہمیں کسی کی تعظیم کیلیے  سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو ہم اللہ تعالی کی اطاعت میں اسے سجدہ کرتے۔ اور اگر اللہ تعالی نے ہم پر سجدہ کرنا فرض قرار نہ دیا ہوتا تو سجدہ ہم پر کبھی بھی واجب نہیں ہو سکتا تھا۔

اس لیے فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا یہ فرشتوں کی جانب سے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل تھی، اور آدم علیہ السلام کیلیے تعظیم  تھی۔

اسی طرح یوسف علیہ السلام کیلیے ان کے بھائیوں کی جانب سے سجدہ سلام اور ملاقات  کیلیے تھا؛ آپ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر یوسف اپنے والدین کیلیے سلام کرتے ہوئے سجدہ کر بھی دیتے تو یہ کوئی [ان کی شریعت میں] مکروہ عمل نہیں تھا" انتہی
"مجموع الفتاوى" (4/360)

6- عبادت اور تعظیم کیلیے کئے جانے والے سجدے میں تمام فقہی مذاہب کے علمائے کرام کے ہاں تفریق کی جاتی ہے:

فخر الدین زیلعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کے سامنے زمین چومنا حرام ہے، یہ عمل کرنے والا اور اس پر اظہار رضا مندی کرنے والا دونوں ہی گناہ ہیں؛ کیونکہ اس میں بت پرستی سے مشابہت ہے"
حسام الدین المشہور صدر شہید کہتے ہیں کہ: "ایسے سجدے سے کافر نہیں ہو گا ؛ کیونکہ اس کا مقصد سلام کرنا ہے" انتہی
"تبيين الحقائق" (6/25)

ابن نجیم حنفی کہتے ہیں:
"ظالم جابر حکمرانوں کو سجدہ کرنا کفر ہےبشرطیکہ عبادت مقصود ہو؛ نہ کہ سلام کرنا مقصود ہو، اکثر علمائے کرام کا یہی موقف ہے" انتہی
"البحر الرائق" (5/134)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بہت سے جاہل اپنے صوفی مشایخ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔۔۔  یہ قطعی طور پر ہر صورت میں حرام ہے،چاہے قبلے کی جانب ہو یا کسی اور جانب، چاہے سجدہ اللہ تعالی کیلیے کرے یا بغیر کسی نیت کے، بلکہ بسا اوقات یہ عمل موجب کفر بھی بن جاتا ہے یا کفر کے قریب تر کر دیتا ہے، اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے " انتہی
"المجموع شرح المهذب" (4/69)

شہاب الدین رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مشایخ کے سامنے صرف سجدہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیخ کی اسی طرح تعظیم کی جا رہی ہے جیسے اللہ تعالی کی تعظیم کی جاتی ہے، یعنی شیخ کو معبود سمجھ کر سجدہ کیا جائے، تاہم اگر شیخ کے بارے میں ایسا نظریہ رکھے تو کفر ہو گا" انتہی
"نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج" (1/122)

مصطفی رحیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عبادت کیلیے سجدہ کسی حکمران کو کیا جائے یا مردے کو سب کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے، اس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، جبکہ کسی مخلوق کو سلام کرتے ہوئے سجدہ کرنا   کبیرہ گناہوں میں سے ہے" انتہی
"مطالب أولي النهى" (6/ 278)

شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[کفر یا شرک کا حکم لگانے کیلیے ] ضروری ہے کہ  سجدہ کرنے والا شخص مسجود کو رب مان کر سجدہ کرے، تو وہ شخص اللہ تعالی  کے ساتھ شرک کرنے والا ہو گا اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود قرار دے گا۔

لیکن اگر صرف تعظیم کیلیے سجدہ کرے جیسے کہ بہت سے عجمی لوگ بادشاہوں کے پاس جا کر بادشاہ کی تعظیم کرتے ہوئے زمین کا بوسہ لیتے ہیں تو اس میں کوئی کفریہ بات نہیں ہے، یہ بات سب کبار  اہل علم کے ہاں معروف ہے کہ الزامی انداز میں کسی کی تکفیر کرنا قدموں کو راہ راست سے ڈگمگانے کیلیے بہت ہی بڑا ذریعہ ہے؛ چنانچہ جو شخص اپنے دین کو خطرے میں ڈالتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے" انتہی
"السيل الجرار" (4/580)

شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلام کرتے ہوئے جھکنے سے مراد صرف سلام ہی ہو تو یہ حرام ہے اور اگر عبادت مقصود ہو تو پھر یہ کفر ہے" انتہی
"فتاوى ورسائل الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ" (1/109)

اسی طرح شیخ عبد العزیز بن عبد اللطیف رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات معروف ہے کہ ایسا سجدہ جس میں خضوع، انکساری اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کرنے کا اظہار ہو تو یہ ایک عبادت ہے، ایسے انداز سے سجدہ رسولوں کی متفقہ دعوت کے مطابق ہے، چنانچہ اگر اس طرح سے سجدہ کسی اور کیلیے کیا جائے تو یہ غیر اللہ کو اللہ تعالی کے ساتھ شریک و ہم پلہ بنانے کے مترادف ہو گا۔
تاہم اگر کسی نے اپنے والد یا صاحب علم شخصیت وغیرہ کو سجدہ صرف تعظیم اور احترام کیلیے کیا تو یہ شرک سے نچلے درجے کا حرام کام ہے، لیکن اگر سجدے کا مقصود  عاجزی انکساری اورخضوع و  ناتوانی کا اظہار ہو تو یہ بھی شرک ہو گا" انتہی
"نواقض الإيمان القولية والعملية" (ص: 278)

اللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب