الحمد للہ.
اول:
مسلم نے ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ) صحیح مسلم : (1162)
اور امام ترمذی : (747) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کر کے اسے حسن قرار دیا، حدیث یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سوموار اور جمعرات کے دن اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ،میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو)
البانی رحمہ اللہ نے (صحیح ترمذی) میں اسے صحیح کہا ہے ۔
گزشتہ صحیح احادیث سے واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے دن جیسے اپنی پیدائش کی خوشی میں روزہ رکھا ایسے ہی اس دن کی فضیلت کی وجہ سے روزہ رکھا ۔کیونکہ اس دن میں آپ پر وحی نازل ہوئی ،اور اسی دن اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔چنانچہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ آپ کا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔ معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش کا اس دن ہونا ،اس دن روزہ رکھنے کے بہت سے اسباب میں سے ایک ہے ۔
چنانچہ جو شخص سوموار کا روزہ رکھتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ،اور اس میں مغفرت کی امید رکھے اور اس دن اللہ تعالی کی بندوں کو عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرے ،جن میں سے سب سے عظیم نعمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور نبوت ہے ، اور اس دن اہل مغفرت میں شامل ہونے کی امید رکھے ،تو یہ اچھی بات ہے اور نبی کی ثابت شدہ سنت کے موافق بھی ہے ،لیکن اس کا یہ معمول سارا سال ہی حسب طاقت جاری رہنا چاہئے ،کسی ہفتے یا مہینے کو خاص نہ کرے ۔
تاہم سال کے کسی دن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے جشن کے لیے ،یا روزے کے لیے خاص کرنا بدعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مخالفت ہے ؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے دن روزہ رکھا ہے ، سال میں جشن ولادت کا دن جس طرح ہفتے کے دیگر ایام کو بن سکتا ہے اسی طرح سوموار کو بھی آ سکتا ہے۔
آپ کی پیدائش کی خوشی میں جشن اور اس کا حکم جاننے کے لئے ،کے لئے سوال نمبر (13810)اور (70317)کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
دوم:
آج کل لوگو ں میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور محفلوں کا انعقاد مشہور ہے ،یہ بدعت اور غیر شرعی عمل ہے ،مسلمانوں کے لیے صرف عیدالفطر اور عید الاضحی کا جشن منانا جائز ہے ۔
اس کی وضاحت بہت سے جوابات میں گزر چکی ہے ،دیکھیں: سوال نمبر(26804) اور (9485) کا جواب۔
پھر کہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت جو کہ حقیقی نعمت اور پوری انسانیت کیلیے رحمت تھی ، اس رحمت کا تذکرہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا:
(وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ )
اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔[الانبیاء:107]
آپ کی ولادت تمام انسانوں کیلیے خیر کا باعث تھی، اور کہاں کسی دوسرے انسان کی پیدائش یا وفات ! کیا ان دونوں کا آپس میں کوئی مقابلہ ہو سکتا ہے؟!
پھر صحابہ اور سلف صالحین نے اس عمل کو کیوں نہیں کیا؟
سلف صالحین یا ابتدائے عہد کے اہل علم میں سے کسی سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے عمل سے دلیل لیتے ہوئے ، ہفتے ،مہینے ،یا سال میں سے کسی خاص دن کی یا اسے تہوار کا دن قرار دینا ثابت نہیں ہے ۔اگر یہ عمل جائز ہوتا تو اہل علم و فضل اور ہر بھلائی کے کام میں سبقت لے جانے والے لوگ ہم سے پہلے اس پر ضرور عمل کرتے؛ جب انہوں نے یہ کام نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ نیا کام ہے جس پر عمل جائز نہیں ہے ۔
واللہ اعلم.