سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بچوں كو روزے كى عادت ڈالنے كا طريقہ

سوال

ميرے بيٹے كى عمر نو برس ہے، ميرا تعاون فرمائيں كہ ميں اپنے بيٹے كو رمضان المبارك كے روزے ركھنے كا عادى كيسے بنا سكتا ہوں؛ كيونكہ اس نے پچھلے برس رمضان كے پندرہ روزے ركھے تھے، ان شاء اللہ وہ اس برس بھى ركھےگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس جيسا سوال ديكھ كر ہميں بہت خوشى ہوتى ہے كيونكہ يہ سوال اولاد كى تربيت كے متعلق خاص اہتمام كى دليل ہے، كہ انہيں اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كى تعليم دى جائے، اور پھر يہ رعايا كى خير خواہى ميں بھى شامل ہوتا ہے كيونكہ اللہ نے بچوں كو والدين كى رعايا بنايا ہے.

دوم:

شرعى طور پر نو برس كا بچہ روزے ركھنے كا مكلف تو نہيں، كيونكہ ابھى وہ بالغ نہيں ہوا، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے والدين كو عبادت كى تربيت دينے كا اللہ نے مكلف ضرور بنايا ہے.

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے والدين كو مكلف كيا ہے كہ وہ جب سات برس كى عمر كے ہوں تو انہيں نماز كى تعليم ديں، اور جب دس برس كے ہو جائيں تو نماز كى ادائيگى نہ كرنے كى صورت ميں ماريں.

اسى طرح صحابہ كرام اپنے بچوں كو بچپن ميں ہى روزہ ركھوايا كرتے تھے تا كہ انہيں يہ عظيم عبادت كرنے كى عادت پڑ جائے، يہ سب كچھ بچوں كى تربيت كى عظيم ديكھ بھال كى دليل ہے، كہ ا ن كى پرورش اچھى صفات اور افعال پر كى جائے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب بچے سات برس كے ہو جائيں ت وانہيں نماز ادا كرنے كا حكم دو، اور دس برس كے ہو جائيں تو نماز ادا نہ كرنے پر انہيں مارو، اور بستروں ميں انہيں عليحدہ كر دو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 495 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور روزے كے متعلق حديث سے ثابت ہے كہ صحابہ كرام اپنے چھوٹے بچوں كو روزے ركھوايا كرتے تھے:

ربيع بنت معوذ بن عفرا رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يوم عاشوراء كے دن مدينہ كے ارد گرد رہنے والے انصار كى طرف ايك شخص كو يہ پيغام دے كر بھيجا كہ:

" جس نے روزہ ركھا ہے وہ اپنا روزہ پورا كرے، اور جس نے روزہ نہيں ركھا وہ باقى سارا دن بغير كھائے پيے گزارے "

چنانچہ اس كے بعد ہم روزہ ركھا كرتے تھے، اور ان شاء اللہ اپنے چھوٹے بچوں كو بھى روزہ ركھواتے اور ہم مسجد جاتے تو بچوں كے ليے روئى كے كھلونے بنا ليتے، جب كوئى بچہ بھوك كى بنا پر روتا تو ہم اسے وہ كھلونا دے ديتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1960 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1136 ).

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے رمضان المبارك ميں نشہ كرنے والے شخص كو فرمايا:

" تو تباہ ہو جائے؛ ہمارے تو بچے بھى روزے سے ہيں، اور پھر اسے مارا "

امام بخارى نے اسے تعليقا باب صوم الصبيان ميں نقل كيا ہے.

جس عمر ميں بچے كو روزہ ركھنے كى تربيت دى جائے گى وہ كوئى مخصوص نہيں، بلكہ جب بچہ روزہ ركھنے كى طاقت والا ہو جائے تو اسے روزہ ركھنے كى عادت ڈالى جائے، ليكن بعض علماء نے اس كى عمر بھى دس برس محدد كى ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 65558 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں بہت فوائد ہيں.

سوم:

رہا بچوں كو روزہ ركھنے كى عادت ڈالنے كے وسائل كے متعلق تو اس كے ليے درج ذيل امور كو ديكھنا چاہيے:

1 ـ انہيں روزے كے فضائل كى احاديث سنائى جائيں، اور يہ بتايا جائے كہ روزہ ركھنا جنت ميں داخل ہونے كا باعث بنتا ہے اور جنت ميں ايك مخصوص دروازہ ہے جس سے صرف روزے دار ہى جنت ميں داخل ہونگے، اس كا نام باب الريان ہے.

2 ـ رمضان سے قبل ہى روزہ ركھنے كى عادت ڈالى جائے مثلا شعبان كے مہينہ ميں كچھ روزے ركھوائے جائيں؛ تا كہ انہيں رمضان المبارك ميں اچانك روزوں كا سامنا نہ كرنا پڑے.

3 ـ شروع ميں دن كے كچھ حصہ كا روزہ ركھوايا جائے، اور آہستہ آہستہ اس ميں اضافہ كرتے ہوئے كسى روز سارے دن كا روزہ ركھوائيں.

4 ـ سحرى بالكل رات كے آخرى حصہ ميں كھلائيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں دن كو روزہ ركھنے ميں معاونت ہوتى ہے.

5 ـ روزے ركھنے كى صورت ميں انہيں انعام دے كر حوصلہ افزائى كى جائے، روزانہ يا پھر ہفتہ وار انعام ديا جائے.

6 ـ افطارى كے وقت خاندان كے افراد كى موجودگى ميں بچوں كى حوصلہ افزائى كرتے ہوئے ان كى تعريف كى جائے، اور اسى طرح سحرى كے وقت بھى، كيونكہ ايسا كرنے سے ان كا حوصلہ بڑھتا ہے.

7 ـ جس كے ايك سے زيادہ بچے ہوں وہ ان ميں ايك دوسرے سے سبقت لے جانے كى روح پيدا كرے كہ نيكى ميں ايك دوسرے سے آگے نكلنا افضل ہے، ليكن پيچھے رہنے والے كى ڈانٹ ڈپٹ مت كرے.

8 ـ اگر كسى بچے كو بھوك لگ جائے تو وہ اسے بہلا پھسلا كر سلا دے، يا پھر مباح اور جائز قسم كى كھيل ميں لگانے كى كوشش كرے، جس ميں تھكاوٹ نہ ہوتى ہو، جيسا كہ صحابہ كرام اپنے بچوں كے ساتھ كيا كرتے تھے، بچوں كے ليے مناسب قسم كے پروگرام اور كھيل اور كارٹون پائے جاتے ہيں جو بااعتماد اسلامى ٹى وي چينلز پر پيش كيے جاتے ان سے استفادہ كيا جا سكتا ہے.

9 ـ افضل اور بہتر يہ ہے كہ والد عصر كے بعد بيٹے كو مسجد ميں لے جائے تا كہ نماز اور دروس وغيرہ ميں شريك ہو، اور وہيں مسجد ميں رہ كر قرآن مجيد كى تلاوت اور اللہ كا ذكر كرتا رہے.

10 ـ دن اور رات كے وقت ان خاندانوں كے افراد كے ليے وقت مخصوص كيا جائے جن كے چھوٹے بچے روزہ ركھتے ہيں؛ تا كہ بچوں ميں مستقل مزاجى پيدا ہو اور وہ روزے ركھتے رہيں.

11 ـ افطارى كے بعد انہيں مباح قسم كے سفر اور ٹور كے انعام سے نوازا جائے، يا پھر ان كى دل پسند ڈش پكا كر اور پسنديدہ پھل لا كر ديے جائيں.

يہاں ہم ايك چيز پر متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ اگر بچہ كو زيادہ بھوك لگ جائے اور روزہ برداشت نہ ہو تو انہيں روزہ مكمل كرنے پر اصرار نہ كريں؛ تا كہ وہ اس كے باعث عبادت سے بغض نہ كرنا شروع كر ديں، يا پھر اس كے باعث وہ جھوٹ نہ بولنے لگيں، يا مرض زيادہ نہ ہو جائے، كيونكہ وہ ابھى مكلف نہيں، اس ليے اس پر متنبہ رہنا چاہيے، اور اس مسئلہ ميں تشدد سے كام نہيں لينا چاہيے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب