الحمد للہ.
محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ کی مراد سنن ترمذی: (346) اور سنن ابن ماجہ: (746) کی روایت ہے جس کے راوی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں کہ: (یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات جگہوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے: گندگی کا ڈھیر، ذبح خانہ، قبرستان، مصروف راستہ، غسل خانہ، اونٹوں کا باڑا اور بیت اللہ کی چھت) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اسے بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: "ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔"
اسی طرح ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے ابن ابی حاتم کی کتاب: "العلل" (1/148) میں، ابن جوزی نے "العلل المتناهية" (1/399) میں ، علامہ بوصیری نے "مصباح الزجاجة" (1/95) میں، حافظ ابن حجر نے "تلخیص الحبیر" (1/531-532) میں اور علامہ البانی نے "الإرواء" (1/318) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
اس بنا پر: مذکورہ جگہوں پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے لیے اس ضعیف حدیث کو دلیل بنانا صحیح نہیں ہے، تاہم ان میں سے کچھ جگہوں پر نماز ادا کرنے کی ممانعت دیگر صحیح احادیث میں ثابت ہے، جیسے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سنن ابو داود: (492)، ترمذی: (317) اور ابن ماجہ: (745) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قبرستان اور حمام کے علاوہ ساری زمین نماز ادا کرنے کی جگہ ہے۔)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث کی سند جید ہے۔
"اقتضاء الصراط المستقيم"، صفحہ: (332) جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے "الإرواء" (1/320) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ جگہوں کے متعلق کچھ تفصیل کی ضرورت ہے، جو کہ درج ذیل ہے:
1-گندگی کا ڈھیر:
یعنی روڑی وغیرہ اس گند میں ممکن ہے نجاست بھی ہو، تو اس لیے اس میں نجاست کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا منع ہو گا۔
اور اگر فرض کر لیں کہ کوڑے کرکٹ کا ایسا ڈھیر ہے جس میں نجاست نہیں ہے تو یہ پھر بھی گندی جگہ ہے؛ ایسی جگہ پر مسلمان کے لیے اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونا مناسب نہیں ہے۔
2- ذبح خانہ:
یعنی جانوروں کے ذبح کرنے کی جگہ، کیونکہ یہ جگہ خون اور دیگر گندگی والی نجس چیزوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن اگر ذبح خانہ صاف ستھرا ہے تو اس میں نماز ادا کرنا صحیح ہو گا۔
3-قبرستان:
قبرستان میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، تا کہ قبر پرستی کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو، یا قبر پرستوں کی مشابہت نہ ہو۔
لیکن اس سے نماز جنازہ کو مستثنی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ قبرستان میں نماز جنازہ صحیح ہوتی ہے، یہ صحیح ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد کی صفائی کرنے والی خاتون کی قبر میں تدفین کے بعد قبرستان میں ہی نماز جنازہ ادا کی تھی۔ اس حدیث کو امام بخاری: (460) اور مسلم : (956) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ایسی مسجد میں بھی نماز ادا کرنا منع ہے جو کہ قبر پر بنی ہوئی ہو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایسے لوگوں پر لعنت تواتر کے ساتھ ثابت ہے جو قبروں پر مسجدیں بنائیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع بھی فرمایا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انبیائے کرام، نیک لوگوں اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر بنی ہوئی مساجد کے بارے میں یہ حتمی بات ہے کہ ان مساجد کو یہاں سے ہٹا دیا جائے، چاہے انہیں گرا کر یا کسی اور انداز سے۔ اس موقف کے بارے میں مجھے معروف علمائے کرام میں سے کسی کا اختلاف معلوم نہیں ہے، اسی طرح ایسی مسجد میں نماز ادا کرنا بھی مکروہ ہے میرے علم میں اس سے متصادم کسی کا موقف نہیں ہے۔ اور اگر کوئی نماز پڑھ بھی لے تو ہمارے حنبلی موقف کے مطابق نماز صحیح نہیں ہو گی؛ کیونکہ یہاں نماز پڑھنا منع بھی ہے اور ایسی جگہ کو مسجد بنانے پر لعنت بھی وارد ہے، نیز دیگر احادیث کی وجہ سے بھی یہ عمل منع ہے۔" ختم شد
"اقتضاء الصراط" (330)
4- مصروف راستہ:
یعنی ایسا راستہ جس پر لوگ چلتے پھرتے ہیں، لیکن کوئی ایسا راستہ جو کہ بالکل ویران ہو چکا ہے، یا راستے کے ایک کنارے پر جہاں لوگ نہیں چلتے تو وہاں نماز ادا کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
مصروف راستے میں نماز کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ: اس سے لوگوں کو گزرنے میں تنگی ہو گی اور لوگ وہاں سے گزر نہیں پائیں گے، پھر انسان خود بھی یکسوئی سے نماز ادا نہیں کر پائے گا جو کہ نماز میں خلل باعث ہے۔
مصروف راستے میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے، لیکن اگر لوگوں کو اس سے نقصان پہنچے ، یا نمازی راستے میں نماز ادا کر کے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالے تو ایسے میں نماز ادا کرنا حرام ہو گا۔
اس میں سے کچھ استثنائی صورتیں بھی ہیں: مثلاً: ضرورت پڑ جائے کہ نماز جمعہ، یا عید کی وجہ سے مسجد بھر جائے تو راستہ بند کر کے نماز ادا کی جا سکتی ہے، اس پر مسلمانوں کا عمل چلتا آ رہا ہے۔
5- حمام:
یعنی غسل خانہ، سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کی پہلے بیان شدہ روایت میں غسل خانے میں نماز ادا کرنا منع قرار دیا گیا ہے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نماز ادا کرنا باطل ہے۔
غسل خانے میں نماز ادا کرنے کی ممانعت اس لیے کہ : وہاں پر شیاطین پناہ گزین ہوتے ہیں، اور وہاں پر ستر سے کپڑا ہٹایا جاتا ہے۔
حدیث کے ظاہری الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ ہر وہ جگہ جس کو غسل خانہ کہہ سکتے ہیں وہاں پر نماز ادا کرنا منع ہو گا، چنانچہ جس جگہ غسل کیا جاتا ہے، اور جس جگہ کپڑے اتارے جاتے ہیں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔
اور اگر غسل خانے میں نماز ادا کرنا منع ہے تو پھر قضائے حاجت کی جگہ میں نماز ادا کرنا تو بالاولی منع ہو گا، چنانچہ لیٹرین میں نماز ادا کرنے کی ممانعت احادیث میں اس لیے واضح لفظوں میں نہیں ہے کہ ہر عقل مند انسان جس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل خانے میں نماز ادا کرنے سے ممانعت سنی وہ لیٹرین میں ممانعت خود بخود سمجھ سکتا ہے۔
اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیت الخلا میں نماز سے ممانعت کی کوئی خاص حدیث وارد نہیں ہے؛ کیونکہ مسلمانوں کو اس وقت اس سے منع ہونے کی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مسلمان پہلے سے ہی اس بات سے واقف تھے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (25/240)
6- اونٹوں کا باڑا:
یعنی وہ جگہ جہان پر اونٹ رہتے ہیں، اسی جگہ کے حکم میں وہ علاقہ بھی آئے گا جہاں پر اونٹ پانی پینے کے بعد جمع ہوتے ہیں۔
اس جگہ پر نماز منع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ: اونٹوں کے رہنے کی جگہوں میں شیاطین کا بسیرا ہوتا ہے، اور اگر نماز کے دوران آس پاس اونٹ بھی ہوئے تو نمازی مکمل توجہ سے نماز ادا نہیں کر پائے گا، اور دوران نماز اونٹوں سے ڈرتا ہی رہے گا۔
7- کعبۃ اللہ کی چھت پر:
اہل علم کہتے ہیں کہ کعبۃ اللہ کی چھت پر نماز سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ نمازی مکمل قبلے کی جانب رخ نہیں کر پائے گا؛ کیونکہ کچھ حصہ پیٹھ پیچھے بھی ہو گا۔
جبکہ کچھ اہل یہ کہتے ہیں کہ کعبۃ اللہ کی چھت پر نماز صحیح ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فتح کے سال بیت اللہ میں داخل ہوئے اور کعبہ کے اندر نماز ادا کی، اب نماز بیت اللہ کے اندر ادا کریں یا چھت پر تو یہ یکساں کیفیت رکھتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ آج کل بیت اللہ کی چھت پر نماز ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔
مزید ایسی جگہیں جہاں پر نماز پڑھنا منع ہے:
8- غصب شدہ زمین:
اگر کوئی شخص زمین غصب کر لے تو اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ ایسی جگہ پر نماز ادا کرنا حرام ہے۔
جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (3/169) میں کہتے ہیں:
"غصب شدہ زمین میں نماز ادا کرنا بالاجماع حرام ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے دیکھیں: "الشرح الممتع" (2/237 – 260) ، ایسے ہی: ابن عثیمین رحمہ اللہ کی "شرح بلوغ المرام " (1/518 – 522) اور "حاشية ابن قاسم" (1/537 – 547)۔
واللہ اعلم